سعودی  ایران تصفیہ خطے میں بھارت – امریکہ عزائم کے لیے دھچکا ؛ علاقائی امن، ترقی کی امید قرار

یہ پاکستان کے لیے اقتصادی ترقی کے علاوہ پراکسی جنگوں اور فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے سمیت دیگر فوائد کے حوالے سے بھی ایک موقع فراہم کرتا ہے

علاقائی سلامتی کے تجزیہ کاروں اور اہلِ علم کا انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام ‘ایران-سعودی تصفیہ: مشرق وسطی میں طاقت کی بدلتی حرکیات’ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میںاظہار خیال

اسلام آباد(ویب  نیوز)

چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تصفیہ مغربی بحر ہند کے خطے، خاص طور پر خلیج میں بھارت-امریکہ عزائم کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے اقتصادی ترقی کے علاوہ پراکسی جنگوں اور فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے سمیت دیگر فوائد کے حوالے سے بھی ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ علاقائی سلامتی کے تجزیہ کاروں اور اہلِ علم نے اس بات کا مشاہدہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)کے زیر اہتمام ‘ایران-سعودی تصفیہ: مشرق وسطی میں طاقت کی بدلتی حرکیات’ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں کیا۔ مقررین اور گفتگو کرنے والوں میں کلیدی مقرر کے طور پر سابق سفیر جاوید حفیظ، سابق سفیر سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس، پروفیسر ڈاکٹر نذیر حسین، سابق ڈین سوشل سائنسز،  قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، ڈاکٹر آمنہ محمود، ڈین سوشل سائنسز ،بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد، آئی پی ایس کے ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اکیڈمک آٹ ریچ پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام اور انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلوز   ڈاکٹر طغرل یمین،بریگیڈیئر (ر)سید نذیر اور ڈاکٹر اظہر احمد شامل تھے۔ ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تصفیے نے مشرق وسطی کے جغرافیائی سیاسی ماحول میں بہتریاور اس کے اطراف کے مثبت مستقبل اور خطے میں سماجی اقتصادی ترقی کی امید کو پھر سے جگایا ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی اہمیت           کا تجزیہ کرتے ہوئے سابق سفیر جاوید حفیظ نے کہا کہ امریکہ کے جنگی نقطہ نظر کے برعکس ترقی اور بحالی امن کے ضمن میں چین کے کردار نے خطے کا سیاسی منظرنامہ تبدیل کر دیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ تنازعے کا سفارتی حل تلاش کرنے، جیو اکنامکس کو ترجیح دینے، اور دیگر علاقائی مسائل کے حل کے لیے سازگار ماحول کے فروغ کے علاوہ، یہ تصفیہ خطے کی جغرافیائی سیاست، سماجی بہبود، اقتصادی ترقی اور استحکام کے لیے دور رس اثرات مرتب کر سکتا ہے۔خطے میں ابھرنے والی نئی طاقت کی حرکیات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چین کی ثالثی اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باوجود امریکہ مشرق وسطی میں اپنی موجودگی سے مستقبل قریب میں دستبردار نہیں ہو گا کیونکہ اس خطے سے امریکہ اور مغرب کے اہم مفادات جڑے ہیں۔ ان مفادات میں سمندری راستے، توانائی کے ذخائر، اسرائیل کی سلامتی، دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششیں اور دفاعی و فوجی سازوسامان کے سودے وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر نذیر حسین نے کہا کہ اگرچہ سفارتی بحالی نے دشمنی کو کم کر دیا ہے،تاہم  ایران اور سعودی عرب اب بھی علاقائی تسلط اور کنٹرول کے لیے کوشاں رہیں گے۔ اس لیے کچھ مسائل اب بھی ان کے درمیان موجود ہیں اور تنازعات کے خاتمے اور تعاون میں اضافے پر مبنی کوششوں کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کی ترقی کرتی معیشت اور پابندیاں ہٹائے جانے کی صورت میں ایران کی تجارتی صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ سعودی عرب ، ایران، پاکستان اور چین باہم تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے ایک متفقہ کنسورشیم تشکیل دے سکتے ہیں۔ اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹر آمنہ محمود نے کہا کہ اس تصفیے سے اقتصادی ترقی کے علاوہ پاکستان کو پراکسی جنگوں اور فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے کا موقع بھی ملے گا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں تسلسل اور متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اظہراحمد کا کہنا تھا کہ چونکہ ریاستوں نے اپنی تزویراتی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لے کر خود کو نئے سرے سے ترتیب دینا شروع کر دیا ہے، لہذا پاکستان کو بھی یہ سیکھنا چاہیے کہ بدلتے ہوئے تزویراتی ماحول اور طویل المدتی قومی مفادات کی بنیاد پر جیو پولیٹکس میں رہتے ہوئے جیو اکنامکس اثر و رسوخ سے کیسے نمٹا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین توازن برقرار رکھنے کی کوششوں کی بجائے پاکستان سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں زیادہ گرم جوشی اختیار کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر طغرل یامین کا کہنا تھا کہ خطے میں امریکہ کی واضح موجودگی اور ایران و سعودی عرب میں عوامی سطح پر پائے جانے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے دیگر مسائل کے حل اور حقیقی میل جول کے آغاز میں وقت لگے گا۔ مقررین نے کہا کہ خلیجی اور مشرق وسطی کی ریاستیں اس بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال میں زیادہ تر چین اور امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھیں گی۔ وہ اپنے فائدے کے لیے عالمی طاقتوں کی کشمکش کا فائدہ اٹھائیں گی۔ اس پیش رفت سے خطے میں چین کے کردار میں بھی اضافہ ہو گا اور افریقہ و مشرقِ وسطی  میں اس کی تجارت اور کامرس کو تیزی سے بڑھانے میں مدد ملے گی۔  اختتامی کلمات میں سابق سفیر ِ پاکستان سید ابرار حسین نے ذکر کیا کہ بدلتے ہوئے حالات دیگر ریاستوں میں بھی نئی ترجیحات پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں دیگر ممالک کے بڑھتے ہوئے مفادات کو اپنے ملکی مفاد کے ساتھ یکجا کرنا ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ZS