کسی ڈیل کے تحت آزادی مارچ ختم نہیں کیا، اسلام آباد میں بیٹھ جاتا تو خون خرابہ ہوجاتا،عمران خان
ہم نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، کیوں کہ ہم لڑائی تو نہیں چاہتے،
ہم جون میں الیکشن چاہتے ہیں، اگر جون میں الیکشن کے لیے تیار ہیں تو باقی چیزوں پر بات ہوسکتی ہے
آزادی مارچ ختم کرکے واپس جانے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، 126 دن کا دھرنا دے چکا ہوں
میرے لیے کیا مسئلہ تھا جب تک یہ حکومت گھٹنے نہ ٹیکتی میں بیٹھا رہتا، لیکن مجھے ملک اور قوم کی فکر تھی
6 دن میں اسمبلی تحلیل کرکے واضح طور پر الیکشن کا اعلان نہ کیا گیا تو ہم بھرپور تیاری کے ساتھ نکلیں گے
پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین کی پریس کانفرنس
پشاور(ویب نیوز)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میں واضح کرتا ہوں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کے تحت آزادی مارچ ختم نہیں کیا ، اگر اس شام اسلام آباد میں بیٹھ جاتا تو خون خرابہ ہوجاتا۔ہم نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، کیوں کہ ہم لڑائی تو نہیں چاہتے، ہم جون میں الیکشن چاہتے ہیں، اگر جون میں الیکشن کے لیے تیار ہیں تو باقی چیزوں پر بات ہوسکتی ہے ،آزادی مارچ ختم کرکے واپس جانے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، 126 دن کا دھرنا دے چکا ہوں، میرے لیے کیا مسئلہ تھا جب تک یہ حکومت گھٹنے نہ ٹیکتی میں بیٹھا رہتا، لیکن مجھے ملک اور قوم کی فکر تھی،6 دن میں اسمبلی تحلیل کرکے واضح طور پر الیکشن کا اعلان نہ کیا گیا تو ہم بھرپور تیاری کے ساتھ نکلیں گے، پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اس روز کنفیوژن تھی، میڈیا پر دباو تھا، انٹرنیٹ سلو کردیا تھا، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہوکیا رہا ہے، ہ کہا جارہا تھا کہ ہم انتشار کرنے کے لیے جا رہے ہیں، کیا کوئی اپنے بچوں و عورتوں کو لے انتشار کرنے جاتا ہے۔ہمیں رکاوٹوں کی وجہ سے پہنچنے میں دیر ہوئی جب میں اسلام آباد پہنچا تو علم ہوگیا تھا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں، شہباز شریف، رانا ثنا اور حمزہ یزید کو ماننے والے لوگ ہیں اور یہ یزید کو ماننے والے پولیس کو کہہ رہے تھے کہ ظلم کرو، جو تماشہ لگایا گیا ہمارے لوگ غصے میں تھے، پولیس کیخلاف نفرتیں بڑھ چکی تھیں، سب لوگ لڑنے کیلئے تیار ہوگئے تھے، اس رات خون خرابہ ہونے لگا تھا، مگر یہ پولیس بھی ہماری ہے، آزادی مارچ ختم کرکے واپس جانے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے میں 126 دن کا دھرنا دے چکا ہوں میرے لیے کیا مسئلہ تھا جب تک یہ حکومت گھٹنے نہ ٹیکتی میں بیٹھا رہتا، لیکن مجھے ملک اور قوم کی فکر تھی۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کرلیں گے، میں نے فیصلہ کیا ہے اور میں اسے جہاد سمجھتاہوں، اگر 6 دن میں اسمبلی تحلیل کرکے واضح طور پر الیکشن کا اعلان نہ کیا گیا تو ہم بھرپور تیاری کے ساتھ نکلیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ 6 دن دیئے ہیں حقیقی آزادی کیلئے ساری قوم تیاری کرکے نکلے گی، تیاری کا مطلب یہ ہے کہ اس بار ہمارے لوگ گھروں سے نہیں پکڑے جائیں گے،6 دن ہیں ہمارے پاس بھی وقت ہے اور حکومت کے پاس بھی وقت ہے، اسٹیبلشمنٹ جو نیوٹرل کردار کررہی ہے اسکے پاس بھی وقت ہے، کوشش یہ ہے کہ چیزیں ہمارے ہاتھ سے نہ نکل جائیں، انہوں نے وہی حرکتیں کیں تو ملک جس طرف جائے گا پھر یہ ذمے دار ہونگے۔چیف جسٹس پاکستان کو بھی خط لکھا ہے کہ کیا جمہوریت میں پرامن احتجاج کا حق ہے یا نہیں صورتحال واضح کریں، مجھے سپریم کورٹ سے پوری امید ہے ان کا اہم کردار ہوگا، 6 دن میں الیکشن کا اعلان نہ کیا تو پھر 6 دن کے بعد لائحہ عمل دوں گا مگر واضح کرتا ہوں کسی صورت یہ سیٹ اپ قبول نہیں،اگر ہمیں پرامن احتجاج نہیں کرنے دیں گے تو کیا راستے رہ جائیں گے، 6دن میں پتہ چل جائیگا کہ سپریم کورٹ ہمارے پرامن احتجاج کا تحفظ کرتا ہے یا نہیں، قوم کو پتہ چلنا چاہیے کہ کون حق پر کھڑا ہے کون ظلم کررہا ہے اور کون ملک میں کرپٹ نظام بچانے کیلئے ہر سطح پر جانے کو تیار ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد ہمیں توقع تھی کہ اب رکاوٹیں ہٹ جائیں گی، ہمیں توقع تھی کہ اب راستے کھل جائیں گے ہم پولیس کی بربریت کیلیے تیار نہ تھے، آزادی مارچ میں ہمارا پرامن احتجاج تھا، ہمارے کارکن ملک کی حقیقی آزادی کے جذبے کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تھے، ہم سب سمجھ رہے تھے کہ پولیس ایکشن نہیں ہوگا کیونکہ پرامن احتجاج ہمار احق ہے، لیکن ملک پر مسلط ٹولے کیخلاف پر امن احتجاج کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ لاہور میں فیصل عباس کو راوی پل سے نیچے پھینکا گیا، خواتین، وکیل، بچوں، بچیوں سے جو سلوک کیا گیا ظلم ہے، ، لبرٹی چوک پر فیملیز پر تشدد کیا گیا، کراچی میں تشدد کیا گیا، اسلام آباد کی فیملیز بھی آگئیں ان پر بھی تشدد کیا، شیلنگ کی گئی، لوگ شیلنگ کے باوجود واپس آئے، وکلا برادری کو لاہور میں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وکیل بسوں میں تھے اس میں خواتین بھی تھیں انہیں مار رہے تھے کون سا انصاف کانظام اس چیزکی اجازت دیتاہے، کون سی پولیس اپنی قوم کی عورتوں کو اس طرح مارتی ہے،جس طرح پنجاب پولیس کواستعمال کیا گیا چن چن کر آفیسرزکو اوپر بٹھایا، کرپٹ افسران کو تعینات کیا گیا آج قوم غصے میں ہے کہ پرامن احتجاج کرنے نہیں دیا گیا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، کیوں کہ ہم لڑائی تو نہیں چاہتے، لیکن سب سے بہتر طریقہ ہے مذاکرات سے اسمبلیاں تحلیل، نئے الیکشن تک پہنچ جائیں، ہم جون میں الیکشن چاہتے ہیں، اگر جون میں الیکشن کے لیے تیار ہیں تو باقی چیزوں پر بات ہوسکتی ہے اور اگر مذاکرات نہیں تو پھر دوسرا طریقہ عوامی احتجاج ہے جو ہم کرتے رہیں گے، اگر یہ نہیں مانتے تو ہم پرامن احتجاج کرتے رہیں گے، بیووکریسی اور اداروں نے جو عوام کیساتھ کیا، یزید کے ماننے والوں نے جو کل کیا ان سے عوام حساب اور جواب لیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ بیرونی قوتیں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا نہیں چاہتیں وہ یہی چاہتی ہیں کہ پاکستان کمزور رہے، انھوں نے پیٹرول کی قیمت آئی ایم ایف کے دباو پر بڑھائی، اس سے ملک میں بدحالی آئیگی اس کااثرلوگوں پر پڑے گا، ہم پر بھی آئی ایم ایف کا پریشر تھا قیمتیں بڑھا ہم نہیں بڑھا رہے تھے، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اب ہم مزید عوام پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔عمران خان نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا میری باقی زندگی قوم کی حقیقی آزادی کیلئے گزرے گی، حکمران ملک کو خود بغاوت کی طرف لے جارہے ہیں، جس طرح مہنگائی ہورہی ہے یہ حکومت عوام کو بغاوت کی طرف لے جائیگی، اس سے ملک میں بدحالی آئے گی، آج سب کو نظر آرہا ہے کہ یہ ہے وہ غلامی کی قیمت جو ہم ادا کررہے ہیں، آئی ایم ایف کو تو امریکا ہی کنٹرول کرتا ہے، پاکستان پر دباو کون ڈال رہا ہے؟ کس نے پاکستان کو لائف سپورٹ مشین پر رکھا ہوا ہے؟انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمعیل کے بیانات سن لیں جب ہماری حکومت عالمی دباو میں آکر قیمتیں بڑھا رہے تھے اس کے باوجود عوام کو بچانے کے لیے پاکستان میں ڈیزل و پیٹرول کی قیمت برصغیر میں سب سے کم رکھی تھی۔ جب قیمتیں بڑھتی گئیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹیکس کو ہدف سے زیادہ جمع کیا، ہم نے وہاں سے اور دیگر جگہوں نے پیسہ نکال کر فیصلہ کیا کہ جون تک پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ نہیں کریں گے۔انہوں نے کہاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کیا اسے چیلنج کرینگے، ووٹ دینا اوورسیز پاکستانیوں کا بنیادی حق ہے، ای وی ایم اور اوورسیز کے ووٹ پر بار بار اپوزیشن کو دعوت دی، میری پوری کوشش تھی کہ الیکشن ایسے کرائیں کہ ہارنے والا مان جائے، ہم جو اصلاحات لیکر آئے سب مانتے کہ الیکشن فیئر ہوئے ہیں، ای وی ایم مشین دھاندلی ختم کرتی ہے جیسے ہی الیکشن ہوں بٹن دبا رزلٹ آجاتا ہے اور ساری دھاندلی ختم ہوجاتی ہے لیکن ای وی ایم سے ان کو تکلیف ہے کیونکہ یہ فارم 15، 14 میں ردوبدل ، ٹھپیلگاتے ہیں، یہ ای وی ایم اس لئے ختم کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ الیکشن میں دھاندلی کرتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ملک تب بچے گاجب ریاست مدینہ کی بنیاد پر کھڑا ہو، ملک میں الیکشن کے اعلان کا مطلب یہ نہیں کہ آپ فتح کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کیخلاف بیرون ملک سے واضح سازش ہوئی، الیکشن میں قوم جسے چاہے ووٹ کرے ہم نہیں چاہتے کہ فیصلہ ہم پر ڈال دیا جائے ہم کوشش کررہے ہیں کہ سارے طبقے مل کر اکٹھے چلیں
#/S