اقتصادی سروے 22-2021 جاری،فی کس آمدن سمیت متعدد اہداف حاصل کرنیکا دعویٰ
معاشی ترقی کی شرح 5 اعشاریہ 97، مہنگائی 11 اعشاریہ 3 فیصد ریکارڈ، تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر تک پہنچ گیا
شیخ رشید خود کہہ چکے ہیں، خان صاحب بارودی سرنگیں بچھا کر گئے، بارودی سرنگیں ریاست پاکستان کے لیے تھیں، وزیرخزانہ
ہم دوبارہ گاڑی کو موٹر وے پر چڑھا رہے ہیں اور ترقی کے نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں، احسن اقبال
اب ملک میں درآمدی فیول پرچلنے والا کوئی نیا پاور پلانٹ نہیں بنے گا،،خرم دستگیر
موجودہ حکومت نے روس سے گندم خرید کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سال 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کر رہے ہیں،مفتاح اسماعیل
سخت فیصلوں کے سبب پاکستان دیوالیہ ہونے کے راستے سے ہٹ گیا ہے، اب ہم استحکام کے راستے پرچل پڑے ہیں،
حکومت پائیدار ترقی کے لیے کوشاں ہے، ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے
آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری،، بجٹ میں جواصلاحات لائیں گے امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کوپسند آئیں گی
22کروڑ کی آبادی کا 700 ارب کا ترقیاتی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے، وزیرخزانہ کی وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس
اسلام آباد(ویب نیوز)
موجودہ مالی سال 2021-22 کا قومی اقتصادی سروے پیش ،اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال جی ڈی پی گروتھ 5.97 فیصد رہی جبکہ اس سال 77 ارب ڈالر تک کی بلند ترین درآمدات رہیں،فی کس آمدن سمیت متعدد اہداف حاصل کرنیکا دعوی بھی کیا گیا،وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے راستے سے ہٹ گیا ہے اور اب ہم استحکام کے راستے پرچل پڑے ہیں،حکومت پائیدار ترقی کے لیے کوشاں ہے، ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے، آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور بجٹ کے بعد بات چیت مزید آگے بڑھے گی، بجٹ میں جواصلاحات لائیں گے امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کوپسند آئیں ،احسن اقبال نے کہا کہ ہم دوبارہ گاڑی کو موٹر وے پر چڑھا رہے ہیں اور ترقی کے نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں،خرم دستگیر نے اعلان کیا کہ اب ملک میں درآمدی فیول پرچلنے والا کوئی نیا پاور پلانٹ نہیں بنے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اقتصادی سروے پیش کردیا گیا، جمعرات کے روز وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال،وزیرتوانائی خرم دستگیر اور وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے موجودہ مالی سال 2021-22 کا قومی اقتصادی سروے پیش کیا۔ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ درآمدات میں 41 فیصد برآمدات میں28 فیصد اضافہ ہوا، اس سال 77 ارب ڈالر تک کی بلند ترین درآمدات رہیں جبکہ تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، ہمیں قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، ادائیگی کا توازن بگڑگیا، مارچ سے اب تک 5.8 ارب ڈالرز کے زخائر کم ہوچکے ہیں تاہم چین سے 2.4 ارب ڈالردو تین روز میں مل جائیں گے اور زرمبادلہ ذخائر 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے، ہمارے دور میں 1650 ارب روپے اور اس سال 5000 ارب روپے کا مالی خسارہ ہوگا، عمران خان نے 19 حکمرانوں کے مقابلے 80 فیصد قرضہ لیا، اس سال 3100 ارب روپے اور اگلے سال ادائیگی 3900 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔ تیل کی قیمت سے متعلق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہونے سے پیٹرول اور ڈیزل دو سے تین بار تیس روپے مہنگا کرنا پڑا،اس سے قبل عمران خان نے عالمی قیمتوں کے برعکس پیٹرول سستا کردیا تھا، خان صاب نے جانے سے پہلے پیٹرول ڈیزل سستا کرکے عوام کو ایسا چیک لکھ کر دیا جس کے لیے کیش تھا ہی نہیں، بارودی سرنگیں صرف حکومت کے لیے نہیں ملک کے لیے تھیں، لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، معیشت خراب ہو رہی ہے تو ملک کی ہو رہی ہے، خان صاحب نے ملک کو نقصان پہنچایا، گندم اور چینی جو 18-2017 میں ایکسپورٹ کر رہے تھے اب امپورٹ کریں گے، پاکستان کئی چیزوں میں پیچھے چلا گیا، اِس وقت بڑا چیلنج مستحکم گروتھ لانا ہے۔ جب بھی تھوڑی سی گروتھ ہوتی ہے ہم کرنٹ اکانٹ خسارے میں پھنس جاتے ہیں،حکومت کورونا کے دوران سودے کر لیتی تو شاید مہنگائی نہ آتی، بجلی کے پلانٹس چلانے کیلئے ہمیں ایندھن لینا پڑ رہا ہے، سی پیک کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا گیا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ شیخ رشید خود کہہ چکے ہیں، خان صاحب بارودی سرنگیں بچھا کر گئے، بارودی سرنگیں ریاست پاکستان کے لیے تھیں، پچھلی حکومت کو کورونا کے دنوں میں تیل کے لمبی مدت کے سودے کرنے چاہیے تھے، کورونا کے بعد تیل اور گیس سستی ہوئی اور پچھلی حکومت نے اس کو مس کیا، کورونا کے دوران جی 20 ممالک نے چار ارب ڈالر کی سہولت دی، گندم بھی آج امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے، موجودہ حکومت نے روس سے گندم خرید کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سال 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کر رہے ہیں، روس سے حکومتی سطح پر بات ہو گی۔ انھوں نے بتایا کہ حکومتی کوششوں سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے راستے سے ہٹ گیا ہے اور اب ہم استحکام کے راستے پرچل پڑے ہیں،ملک میں اب معاشی ترقی پائیدار ہوگی اور اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے،ہمیں جامع نمو چاہیے، ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ سرمایہ کار طبقے کو تجارت آگے بڑھانے کے لیے مراعات دیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ امرا جب صنعتیں لگاتے ہیں، مراعات پاتے ہیں تو درآمدات بہت بڑھ جاتی ہیں، اگر جامع نمو ہوگی، غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید بڑھا کر نمو کی جائے تو اس سے مقامی اور زرعی پیداوار بڑھے لیکن درآمدی بل نہیں بڑھے گا کیوں کہ امرا جب خرچ کرتے ہیں تو اس میں درآمدی اشیا زیادہ ہوتی ہیں جبکہ غریب شخص آٹے دال وغیرہ جیسی چیزوں پر خرچ کرتا ہے،80 فیصد انڈسٹری مقامی مارکیٹ کیلئے ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ ہو۔آئی ایم ایف سے متعلق مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور بجٹ کے بعد بات چیت مزید آگے بڑھے گی، بجٹ میں جواصلاحات لائیں گے امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کوپسند آئیں گی۔وزیرخزانہ نے الزام لگایا کہ سابق حکومت نے فروری کے بعد گیس بند کردی تھی تاہم اب ہم تمام صنعتوں کو گیس دے رہے ہیں، جھوٹ کا بیانیہ تھا کہ ایل این جی کے طویل مدتی سودے مہنگے تھے تاہم آج ہر شعبے میں مہنگائی کی وجہ یہی ہے۔وفاقی وزیراحسن اقبال کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ آج جس اقتصادی سروے کوجاری کررہے ہیں اس کے صرف آخری 2 ماہ میں ہماری حکومت رہی، اس سروے کے اہداف اور حقیقی اعدادوشمار کا کوئی تعلق نہیں، بیس ایئرتبدیل کرنے سے زیادہ گروتھ دکھائی دے رہی ہے،سال 2021 اور2022 میں 900 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا تاہم پہلے ترقیاتی بجٹ کم کرکے 700 ارب روپے کیا گیا اور پھر550 ارب روپے کردیا گیا، ہمارے دور میں ٹیکس وصولی 2 ہزار ارب سے 4 ہزار ارب روپے تک گئی اور ہم نے دفاع اور ڈیویلپمنٹ دونوں کی ضروریات کو پورا کیا۔ وفاقی وزیرترقی و منصوبہ بندی نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کی پچھلی حکومت کی ترجیح ایک جدید معیشت اور متوازن گروتھ کی تھی تاہم سال 2018 میں نئے پاکستان کے سفر کا آغاز ہوا اور اس نے 4 سال میں پاکستان کو برباد کردیا، ہم دوبارہ گاڑی کو موٹر وے پر چڑھا رہے ہیں اور ترقی کے نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں، کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ عوام پر60 روپے لیٹر پیٹرول کا بوجھ ڈالے،موجودہ حکومت نے ایک مہینہ کوشش کی کہ لوگ بوجھ سے بچ جائیں تاہم جب روپیہ کمزور ہونے لگا تو پھر پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھاکہ 75 سال میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آخری سہہ ماہی میں فنڈز جاری نہ ہوئے ہوں اور آج ترقی نصف پردوبارہ چلی گئی ہے،22 کروڑ کی آبادی کا 700 ارب کا ترقیاتی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے، پاکستان تخریبی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا، انسانی وسائل کی ترقی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ وفاقی وزیر نے تسلیم کیا کہ برآمدات میں سالانہ 5 سے 10 ارب ڈالر اضافہ چیلنج ہے، ایچ ای سی کے بجٹ کو 26.3 ارب روپے سے بڑھا کر 44 ارب روپے سے زیادہ کیا جا رہا ہے جبکہ سی پیک کے منصوبے دوبارہ بحال کررہے ہیں، فنڈزجاری نہ ہونے سے گوادر پورٹ کی ڈریجنگ نہیں ہوسکی اور آج بندرگاہ کی گہرائی صرف 9 میٹررہ گئی ہے اور کوئی بڑا جہاز نہیں آسکتا، ایم ایل ون اور خصوصی اقصادی زونز کیلئے فنڈنگ رکھی گئی ہے جبکہ یوتھ اوربلوچستان کیلئے زیادہ فنڈز رکھے ہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیرخرم دستگیرنے عمران حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بتایا کہ اس معاشی کھنڈر میں سب سے زیادہ تباہ کن صورتحال توانائی کے شعبے کی ہے، سابقہ حکومت نے ایندھن کی خریداری کے اقدامات نہیں کیے اور خسارہ 1100 ارب روپے سے بڑھ کرسے 2470 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، گردشی قرضے میں250 فیصد اضافے نے گھمبیرمالی بحران پیدا کردیا، سال 2018 میں ملک میں بجلی ضرورت سے زیادہ تھی اورآج بھی ہمارا تخمینہ ہے کہ سال میں 2 سے 3 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونی چاہئے تاہم پچھلے 4 سال میں صفر میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوئی، توانائی کے جتنے بھی منصوبے ہیں وہ مسلم لیگ ن نے شروع کئے، ہم نے کینپ ٹو اور کینپ تھری کے پاورپلانٹس بھی لانچ کئے، ملکی تاریخ میں پہلی بار ن لیگ نے تھرکول سے بجلی بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ خرم دستگیر نے کہا کہ کروٹ، شنگھائی الیکٹرک اور تریموں پاور پلانٹس تاخیر کے شکار نہ ہوتے تو آج لوڈشیڈنگ صرف 15 منٹ کی ہوتی، اب ملک میں درآمدی فیول پرچلنے والا کوئی نیا پاور پلانٹ نہیں بنے گا۔
اقتصادی سروے کے نمایاں خدوخال ہیں کیا؟ اقتصادی سروے میں دعوی کیا گیا کہ رواں مالی سال جی ڈی پی، زراعت، صنعتی اور خدمات کے شعبے کے اہداف حاصل کرلئے گئے،معاشی شرح نمو اور فی کس آمدن سمیت بھی متعدد اہداف حاصل کر لیئے گئے ہیں جب کہ مہنگائی، تجارتی خسارے، درآمدات، کرنٹ اکانٹ خسارے سمیت متعدد اہداف حاصل نہ ہوسکے۔ دستاویزات کے مطابق فی کس آمدن میں 122 ڈالر کا اضافہ ہوا اور1676 ڈالرسے بڑھ کر 1798 ڈالر ہوگی، جب کہ پاکستانی روپے میں فی کس آمدن میں 46 ہزار 130 روپے اضافہ دیکھا ہے، فی کس آمدن بڑھ کر 3 لاکھ 14 ہزار 353 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ موجودہ مالی سال فی کس آمدن کا ہدف 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے تھا۔ دوسری جانب زراعت، صنعت اور سروسز سیکٹر کے اہداف بھی حاصل کرلیے گئے ہیں۔ مالی سال 22-2021 جی ڈی پی کی شرح 6 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا گیا تھا،زرعی شعبے کی پیداوار 3.5 فیصد کے ہدف کی نسبت 4.4 فیصد ریکارڈ کی گئی، صنعتی شعبے کی پیداوار 6.6 فیصد کے ہدف کی نسبت 7.2 فیصد ریکارڈ کی گئی، رواں مالی کے سال کے جولائی تا اپریل کے دوران کرنٹ اکانٹ خسارہ 13 ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ اس کا ہدف 2 ارب 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مقرر کیا گیا تھا، اسی طرح تجارتی خسارہ 43 ارب 33 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گیا، تجارتی خسارے کا ہدف 28 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مقرر تھا، ملکی درآمدات رواں مالی سال میں جولائی تا مئی کے دوران 72 ارب 18 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں، درآمدات کا ہدف 55 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مقرر کیا گیا تھا۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی تا مئی میں برآمدات 28 ارب 84 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ ان کا ہدف 26 ارب 83 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا تھا۔ اقتصادی سروے میں توانائی شعبے، کیپٹل مارکیٹ، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ سیکٹر کی گروتھ بیان کی گئی۔دستاویزات میں بتایا گیا کہ خدمات کے شعبے کی پیداوار 6.2 فیصد رہی جبکہ ہدف 4.7 فیصد مقرر کیا گیا تھا، رواں مالی سال اوسط مہنگائی کی شرح 8 فیصد کے مقابلے میں 13.3 فیصد رہی،مجموعی سرمایہ کاری 16.1 فیصد ہدف کے مقابلے15.1 فیصد رہی جب کہ نیشنل سیونگز 15.4 فیصد ہدف کے مقابلے11.1 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی 22 کروڑ 47 لاکھ ہے، جن میں سے 8 کروڑ 28 لاکھ افراد شہروں میں رہتے ہیں، جبکہ 14 کروڑ 19 لاکھ افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔