گلگت سے چترال تک خودکشیوں کی ایک لہر نے پورے علاقے پر قہر برپا کردیا
گلگت بلتستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران خودکشیوں کے دو سو سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے
چترال میں پچھلے سات آٹھ برسوں میں خودکشیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر چکی
نئے خوابوں اور پرانی روایتوں کے بیچ پیدا ہونے والے جان لیوا تصادم نے ان علاقوں پر ڈیرے ڈال دئیے
جرمن ٹی وی کی چونکا دینے والی خصوصی رپورٹ
گلگت( ویب نیوز) گلگت سے چترال تک خودکشیوں کی ایک لہر نے پورے علاقے پر قہر برپا کردیا، نئے خوابوں اور پرانی روایتوں کے بیچ پیدا ہونے والے جان لیوا تصادم نے ان علاقوں پر ڈیرے ڈال دئیے، ،جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیوڈی کی ایک رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران خودکشیوں کے دو سو سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ خود کشی کرنے والوں میں تقریبا 120 مرد اور 105 خواتین شامل ہیں۔ سب سے زیاد ہ خود کشی کے واقعات ضلع غذر میں ہوئے ہیں،جبکہ چترال میں پچھلے سات آٹھ برسوں میں خودکشیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر چکی ہے۔ گلگت کی نسبت یہاں خودکشی کرنے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دریائے گلگت کو دائیں جانب رکھتے ہوئے شہر سے نکلیں تو آپ غذر ڈسٹرکٹ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس ایک ڈسٹرکٹ میں ہونے والی خود کشیوں کی تعداد کم وبیش 115 ہے۔ ان میں 40 فیصد سے کم مرد ہیں اور 60 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ گزشتہ چالیس روز میں یہاں یاسین علاقے سے ایک اور نوجوان کی تازہ خود کشی سمیت 18 خودکشیا ں ہوئیں ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چترال میں گذشتہ سات آٹھ برسوں کے دوران خودکشیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر چکی ہے۔ گلگت کی نسبت یہاں خودکشی کرنے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ مردوں میں بڑی تعداد ان کی ہے، جن کی عمر پندرہ سے پچیس سال کے بیچ بنتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب گلگت اور چترال میں ہی کیوں اور پھر انہی علاقوں میں کیوں، جہاں خواندگی کی شرح پاکستان کے بڑے شہروں سے بھی زیادہ ہے؟ جہاں نوجوان بظاہر کسی بڑی الجھن کا شکار نظر نہیں آتے، اچھا پہنتے ہیں اچھا کھاتے ہیں۔ سلیقے سے بال بناتے ہیں، صفائی کا خیال رکھتے ہیں۔ گیت گاتے ہیں رقص کرتے ہیں، شعر پڑھتے ہیں، موسیقی سنتے ہیں۔ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں اور پیارا سا مسکراتے ہیں۔ پھر اپنے ہاتھوں اپنی جان کیوں لے لیتے ہیں، کیا سکون حد سے گزر گیا ہے؟ یا اندر ہی اندر کوئی پریشانی کھائے جارہی ہے، جو انٹرو ورٹ طبعیت رکھنے والا شمال کسی کو بتانا نہیں چاہتا؟ اس سوال کے جواب میں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ بظاہر بہت اچھا نظر آ رہا ہے، اسی اچھے میں کچھ صورتیں بگاڑ کی پیدا ہو گئی ہیں۔ اگر تعلیم ہے تو تعلیم میں پھر مقابلہ کانٹے کا ہے۔ دو نمبر پیچھے رہ جانے والے کو بھی منہ چھپا کر گزرنا پڑتا ہے۔ نظریں چبھتی ہیں اور سوال تنگ کرتے ہیں۔ جو تعلیم میں بالکل ہی رہ جائے، وہ تو کہیں کا نہیں رہتا۔ (حالانکہ شمال کا ناخواندہ ہمارے خواندہ سے ایک جماعت زیادہ ہی پڑھا ہوا ہوتاہے)۔بے روزگاری، مواقع کی کمیابی، سماجی رکاوٹیں اور فرسودہ روایات سے جنم لینے والے المیے اس کے علاوہ ہیں۔ یہ صورتِ حال نوجوانوں کو تنہائی کے حوالیکردیتی ہے، اور پھر تنہائی کے موڈ پر ہے کہ وہ ہاتھ آئے ہوئے نوجوانوں کو کس طرف لے جاتی ہے۔ ان دنوں تو موت کی گہری وادیوں میں لے جا رہی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ خواتین شرح خواندگی میں مردوں سے آگے نکل گئی ہیں۔ یہ بات مردوں کی انا پر ایک بڑی ضرب ہے۔ خواتین نوکریاں کر رہی ہیں، برابری کر رہی ہیں اور کئی مثالوں میں تو گھر کا بوجھ بھی اٹھا رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال پدر سری سماج میں مرد جاتی کی غیرت پر کچھ سنگین سوال اٹھا دیتی ہے، جو ذہنی الجھن میں بدل جاتے ہیں۔ الجھن کی جنہیں سلجھن نہیں ملتی، وہ موت سے مدد مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔پھر ایک مسئلہ کچھ خواتین کو درپیش ہے۔ یہ پڑھ لکھ کر بھی روایتی بیوی بننے پر مجبور ہیں۔ ان کی ترجیح اور مرضی نہیں چلتی۔ اتنی بھی نہیں کہ شادی کے لیے مناسب وقت کا فیصلہ ہی وہ خود کر لیں۔ بس جو بڑوں نے کہہ دیا، سو کہہ دیا۔ روایت کے سامنے ہتھیار ڈال کر انہیں ایسے مردوں سے شادی کرنی پڑ جاتی ہے، جن کے ساتھ ان کا جوڑ نہیں بیٹھتا۔ اکثر شوہروں کی ٹوٹل کوالیفیکیشن یہ ہوتی ہے کہ وہ مرد ہوتے ہیں۔ اِس ایک فضیلت کا بہت بھاری ٹیکس ہے، جو عورتوں کو روزانہ کی بنیاد پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ روز جینا روز ہی مرنا، یہ ذرا مشکل کام ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گلگت کے، جن علاقوں میں خواتین پڑھی لکھی نہیں ہیں، وہ مطمئن ہیں۔ انہوں نے سامنے والے پہاڑ سے آگے کی دنیا نہیں دیکھی، سو انہیں رائیگانی کا احساس بھی نہیں ہے۔جن علاقوں میں تعلیم ہے، وہاں لڑکیوں کی آنکھ آگہی کے عذاب میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ وہاں کی عورتوں نے تعلیم اور شعور کی آنکھ سے زندگی کے نئے رنگ دیکھ لیے ہیں۔ اپنا حق جان لیا ہے اور طاقت کا درست تخمینہ لگا لیا ہے۔ نئے امکانات کو وسیع ہوتا ہوا دیکھ لیا ہے۔ اب ایک طرف صلاحیت کا تقاضا ہے کہ مجھے کہیں کھپا اور دوسری طرف روایت کا حکم ہے کہ پاوں سمیٹ کر واپس چلے آو۔ بچے پیدا کرو، انہیں پالو، گھر گرستی کرو، ہمارا دم اور صاحب کا پانی بھرو۔ بزرگوں کی اس ایک خواہش پر انہیں اپنے سارے خواب اور کامیابی کے ہر امکان کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ یعنی زندگی کا فریب دے کر انہیں جنت سے نکالا گیا۔ زندگی کی لت لگ گئی تو اب پھر سے جنت کا شوق جگایا گیا۔ آسان بھاشا میں یہ نئے خوابوں اور پرانی روایتوں کے بیچ پیدا ہونے والا جان لیوا تصادم ہے۔ خوابوں کی مانو تو بڑوں کے دل ٹوٹتے ہیں، بڑوں کی مانو تو خواب ٹوٹتے ہیں۔حل پوچھیں تو کچھ لوگ کہتے ہیں، اب دو ہی راستے ہیں۔ یا تو نوجوانوں کو تعلیم اور مشاہدے سے محروم کر دیا جائے یا پھر روایت سے جڑے ہوئے لوگ اپنے قدیم اصولوں پر سمجھوتہ کر لیں۔ ارتقا کا چلن یہ بتاتا ہے کہ روایت کو ہی ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ یہ ہتھیار نہ ڈالیں تو بھی جیت خوابوں کی ہو گی مگر دیر ہو جائے گی۔ ہتھیار ڈال لیں گے تو اپنے آشیانے کو اپنے ہی ہاتھوں پھونکنے سے بچ جائیں گے۔ جرمن ٹی وی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک پہلو اور ہے، جو کہ سنگین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان خودکشیوں میں زیادہ تر واقعات غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے ہیں۔ یہ قتل کبھی بھائی کے ہاتھوں ہوا، کہیں منگیتر کے ہاتھوں، کہیں بوائے فرینڈ کے ہاتھوں اور کبھی شوہر کے ہاتھوں۔ اس کہانی میں نوجوان لڑکے بھی مارے گئے۔ یہ قتل اس لیے چپ چاپ کرنے پڑتے ہیں کہ شمالی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو ہیرو نہیں مانا جاتا۔ دوسرے علاقوں کی طرح یہاں قاتل سینہ چوڑا کر کے جرگوں میں نہیں بیٹھ سکتا۔خواتین کے کیس میں زیادہ تر دریا کا ذکر ملتا ہے جبکہ مردوں کے کیس میں پنکھے، گولی، زہر اور پھندے کا حوالہ ملتا ہے۔ کچھ لوگ اس بات کو بہت قابلِ غور قرار دیتے ہیں کہ دریا ہی کیوں؟ ان کا ماننا یہ ہے کہ یہ ایک محفوظ طریقہ واردات ہے، جس میں بندوق کا تکلف کرنا پڑتا ہے نہ فنگر پرنٹس جیسے شواہد کا کوئی خطرہ رہتا ہے۔ دریا میں ڈوب کر مرنے والے کی اول تو لاش نہیں ملتی، مل جائے تو تقریبا مسخ ہو چکی ہوتی ہے۔ سو غیرت کے نام پر قتل کے لیے گھاٹ دریا کے کنارے لگا دیے ہیں۔اسی طرح ذاتی لڑائی جھگڑوں میں ہونے والی قتل کا الزام بھی خودکشی کے کھاتے میں ڈالنے کا رجحان بھی موجود ہے۔ خودکشیوں کے تقریبا 60 کیسز قتل کی واردات ثابت ہو چکے ہیں۔ غذر ڈسٹرکٹ میں ہونے والی حالیہ 18 خودکشیوں میں سے چار پر پولیس نے قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ خودکشیوں کی یہ غیر معمولی تعداد بھی مقامی اور غیر مقامی اداروں کو ایک حد سے زیادہ متحرک کرنے میں ناکام ہے، نہ جانے کیوں؟ عالمی ادارے آواز دینے پر ایک نظر اِس جانب دیکھتے ہیں اور واپس اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ حکومتی کمیٹیاں بھی اس سلسلے میں نشست و برخاست کی مشقیں بن کر رہ گئی ہیں۔ ایسی کوئی مستند رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی، جس میں اس بنیادی انسانی المیے کا نفسیاتی، سماجی، ثقافتی، ماحولیاتی اور معاشی پہلووں سے احاطہ کیا گیا ہو۔ کچھ غیر منظم سی آرا ہیں، جو یہاں وہاں بکھری پڑی ہیں۔غذر ڈسٹرکٹ کی سول سوسائٹی اب کی بار سنجیدہ انداز میں اس المیے کا تعاقب کرنے نکلی ہے۔ پورے شمال سے انہوں نے قریب چار سو نوجوانوں کا معرکہ(جرگہ) طلب کیا ہے۔ اس معرکے میں سماج بولے گا اور فیصلہ ساز سنیں گے۔ اختتام پر ‘چارٹر آف ڈیمانڈ آن مینٹل ہیلتھ کے عنوان سے کچھ مانگیں رکھی جائیں گی۔باقی المیے اپنی جگہ لیکن تازہ المیہ یہ ہے کہ کاہلی، غفلت، فرار، غربت اور موت کی گلوریفیکیشن ہو رہی ہے۔ پراگندگی، بدمزگی، بیزاری اور زود رنجی کو سنجیدگی اور گہرائی کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔ خودکشی کو عظمت کی علامت بھی بتایا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات سننے سنانے میں دلچسپی لی جا رہی ہے،جن میں بڑے لوگوں نے خودکشیاں کیں۔ ان لوگوں میں ایک کراچی کے جواں مرگ شاعر ثروت حسین بھی ہیں،جس کا ایک شعر ان دنوں زبان زدِ عام ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا پر کچھ ہنستے بستے نوجوانوں کی بائیو میں بھی لکھا نظر آرہا ہے۔