معاشی اعدادوشمار انتہائی خطرناک، کسی کو علم نہیں ، ڈاکٹر وقار مسعود

معاشی  بحران سے نکلنے کیلئے  پاکستان کو خودانحصاری کی جانب بڑھنا ہوگا ورنہ  آگے نہیں بڑھ سکتے،سابق سیکرٹری خزانہ

سودی نظام سے خاتمہ ناگزیر ہوچکا  ۔ حکومت وفاقی  شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنے اخراجات کم کرے

ماہرین معیشت کاجماعت اسلامی کے زیر ا ہتمام موجودہ معاشی بحران پر قومی مشاورتی سیمینار سے خطاب

اسلام آباد(  ویب نیوز)

سابق سیکرٹری خزانہ  ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا ہے کہ معاشی اعدادوشمار انتہائی خطرناک ہیں جن کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ معاشی  بحران سے نکلنے کیلئے  پاکستان کو خودانحصاری کی جانب بڑھنا ہوگا ورنہ  آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جماعت اسلامی کے زیر ا ہتمام موجودہ معاشی بحران پر قومی مشاورتی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے  ڈاکٹر وقار مسعود نے کہاکہ پاکستان کی حکومتیں طویل عرصہ سے عادی ہوچکی ہیں کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود  بے تحاشا اخراجات کرتی ہیں جس کا نتیجہ قرض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ حقیقت میں جس طرح سے ملک کی معیشت حکومت کی جانب سے چلائی جارہی ہے اس پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ تمام اخراجات قرضے سے چل رہے ہیں حکومت بھی قرضے پر چلتی ہیں  اور یہ وہ قرض ہے جو سود پر لیا گیا ہے۔ انہوں نے  مثال دیتے ہوئے کہاکہ جب ایک گھر اپنی آمدن سے  زائد خرچ کرتا ہے تو اس کا نتیجہ قرض کی صورت میں نکلتا ہے۔ حکومت ایک مخصوص عرصے تک قرض حاصل کرسکتی ہے ہم اس  عرصے کے اختتام کو چھو رہے ہیں۔ ٹیکس کے ذریعے  ہم جی ڈی پی کا  صرف 10فیصد حصہ وصول کرپاتے ہیں ۔اشرافیہ سے  جتنا ٹیکس لے سکتے ہیں نہیں   لے رہے انہوں نے تجویز دی کہ  حکومت ٹیکس بڑھائے اور اخراجات ختم کرے ۔ انہوں نے کہاکہ  قومی مالیاتی کمیشن سے 57 فیصد ٹیکس صوبوں کو منتقل ہوتا ہے اور صوبوں کو سوائے خرچ کرنے کے کوئی کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو ادارے صوبوں کے پاس گئے  وہ اب بھی وفاق کے پاس موجود ہیں۔ اگر صحت، تعلیم سمیت دیگر تمام خدمات وفاق نے دینی ہے تو وسائل بھی ہونے چاہئیں۔وقار مسعود نے کہاکہ قومی قرضہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ معاشی اعدادوشمار انتہائی خطرناک ہیں جن کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ معاشی  بحران سے نکلنے کیلئے  پاکستان کو خودانحصاری کی جانب بڑھنا ہوگا ورنہ  آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انہوں نے کہاکہ فوری طورپر قرضوں کو بند  کریں گے تو اس کا بھی اثر ملکی معیشت پر پڑے گا۔ ہمیں اپنے آپ کو اپنی چادر کے اندر لانا ہوگا۔ بدقسمتی سے  ہر نئی حکومت جانے والی حکومت کو کوستی رہتی ہے۔ اپنی بات کرنے کی کسی کے پاس فرصت نہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے  سودی نظام معیشت کے خلاف فیصلہ دیا ہے اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہاکہ ملک کو بجلی کے ناقص نظام سے سالانہ ساڑھے چار  ارب  ڈالر  کا نقصان ہورہا ہے۔ جبکہ گیس لیکج یا چوری سے  126 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے اور بڑے قومی اداروں کی وجہ سے اب تک  دو ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بیماری کی تشخیص کرنا ہوگی  ، ریاست میں سب سے بڑا نقصان حکومت کررہی ہے۔ حکومت حکمرانی کرے بزنس نہ کرے۔ تمام ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں دئیے جائیں جس سے کرپشن ازخود نیچے آجائے گی۔ جی ڈی پی پر حکومتی سایہ 67فیصد ہے دنیا بھر میں  ان اداروں میں کرپشن ہوتی ہے جہاں ادارے حکومتی تحویل میں ہوں۔حافظ عاکف سعید نے کہاکہ ملکی نظام معیشت شدید بحران کا شکار ہے اس صورتحال میں سودی نظام سے خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ حکومت وفاقی  شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنے اخراجات کم کرے۔ احمد علی صدیقی نے کہاکہ سود کا نظام برائی کی بنیاد ہے۔ سالانہ چار ہزار ارب ڈالر سود کی مد میں دیا جاتا ہے۔ ملک کا معاشی نظام بچانے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شب کی جانب آنا ہوگا۔ ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے کہاکہ جماعت اسلامی کو قرض  اتارو مہم شروع کرنی چاہیے اس سے  پاکستان میں حکومت کو قرض  دینے کا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کا موجودہ نظام غریب کا خون نچوڑ رہا ہے۔85فیصد ٹیکس بلواسطہ لگایا جاتا ہے ، پراپرٹی پر بھی ٹیکس لگانا چاہیے۔  پلاننگ  ڈویژن کے سابق افسرسید نصیر احمد گیلانی نے کہاکہ غلاموں کی بصیرت کا ہر راستہ آئی ایم ایف کی طرف جاتا ہے ہم نظریاتی ملک ہیں نظریاتی طریقہ کار سے  چلایا جائے تو ملک بہتر معیشت کی جانب بڑھ سکتا ہے  انہوں نے کہاکہ چین کے ساتھ فری ٹریڈ اگریمنٹ ختم کریں تو بڑے پیمانے پر زر مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عتیق ظفر نے کہاکہ ملک میں کوئی ادارہ درست کام نہیں کررہا۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ اس حوالے سے قانون سازی کرکے  حکومت سرمایہ کاری کو بہتر انداز میں وطن کی جانب راغب کرسکتی ہے۔ ڈا کٹر عزیز نشتر نے کہاکہ ملک کے ٹیکس نظام میں سٹرکچرل تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ یہاں غریب آدمی سے پیسہ اکٹھا کرکے چند  لاکھ لوگوں کی جیبوں میں ڈالا جاتا ہے بدقسمتی سے اس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے کہاکہ آزادی کے 75 سال مکمل ہوچکے ہیں اور ہم معاشی بدحالی کا شکار ہوئے بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے سامنے شرمندہ ہیں کہ ہم انہیں مضبوط معیشت نہیں دے رہے۔ خاقان نجیب نے اپنے  ویڈیو  پیغام میں کہاکہ پاکستان میں22بار آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت کی تمام دوست ممالک سعودی عرب،متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو کہاکہ وہ آئی ایم ایف میں رہے اس کے اثرات صاحب  حیثیت  طبقہ پر پڑے ہیں۔ سابق چیئرمین ٹیرف کمیشن عباس حیدر نے کہاکہ موجودہ بجٹ63 بلین ڈالر خسارے کا بجٹ ہے۔ بجٹ بنانے والے  کس کو بیوقوف بنارہے ہیں 22کروڑ عوام حقائق جانتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 200بلین کی خرد برد ہورہی ہے اگر اس پر قابو پالیں تو پٹرول کی قیمتوں میں چالیس روپے تک کمی لائی جاسکتی ہے۔  اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدرظفر بختاوری نے کہاکہ پاکستان معاشی طورپر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ ملک میں تاجروں کو عزت نہیں دیں گے تو خوشحالی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہاکہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو مافیاز کا نام دیا جاتا ہے۔ ٹیکنو کریٹس کو وزیر خزانہ بنایا جاتا ہے  قومی معاشی پالیسی بنانا ہوگی۔ انہوں نے ملک میں  معاشی ایمرجنسی نافذ کرکے سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہاکہ ملک کے 84 بڑے اداروں کا کل خسارہ ایک ہزار ارب روپے سالانہ سے بڑھ چکا ہے ان سے چھٹکارا حاصل کیوں نہیں کیا جاتا انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی آئی اے ،اسٹیل مل ، ریلوے سمیت خسارے میں جانے و الے تمام اداروں کی نجکاری کی جائے۔

#/S