وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ اجلاس، امدادی رقم کو شفاف طریقے سے سیلاب زدگان تک پہنچانے کے لیے جائزہ کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری
وزیراعظم نے این ڈی ایم اے او رتمام پارٹیوں کے نمائندگان کا ہنگامی اجلاس بدھ کو طلب کر لیا
ملک کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے نکاسی آب کا موثر نظام اور بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر ناگزیر ہے، شہباز شریف
وزیراعظم کی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کرخلقِ خدا کی خدمت کے لیے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو مل جل کرکام کرنے کی ہدایت
دشواریوں کے باوجود ہمیں قومی وحدت کا مظاہرہ کرکے مشکل میں گِھرے ہم وطنو کی خدمت کو یقینی بنانا ہے، و زیرعظم کا اجلاس میں اظہار خیال
اسلام آباد (ویب نیوز)
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل کے روز وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ وزیراعظم نے تمام کابینہ ممبران کو خوش آمدید کہا۔ کابینہ نے یومِ دفاع و شہدائے پاکستان کے موقع پر افواج ِ پاکستان کے شہدا اور سیلابی ریلوں کی نذر ہوجانے والے افراد کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) نے وفاقی کابینہ کو ملک بھر میں سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی کی موجودہ صورتحال،وفاقی اور صوبائی محکموں کی طرف سے جاری ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں پر مفصل بریفنگ دی۔ کابینہ کو بتایا گیاکہ حالیہ سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے جس میں سندھ اور بلوچستان بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جن میں 81 اضلاع کی 6615 یونین کونسلیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ان میں بلوچستان کے 32 ،سندھ کے 23 ،خیبر پختونخوا کے 17، گلگت بلتستان کے 6 اور پنجاب کے 3 اضلاع شامل ہیں۔ 14 جون سے اب تک پورے پاکستان میں پچھلے تیس سال کی نسبت 190 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، جبکہ سندھ میں اس کی شرح 465 فیصد اور بلوچستان میں 437 فیصد رہی ہے۔ ملک بھر میں مرد، خواتین اور بچوں سمیت 1325 لوگ لقمہ اجل بنے۔ جن میں سندھ کے 522، خیبرپختونخوا کے 289، بلوچستان کے 260، پنجاب کے 189، آزاد جموں کشمیر کے 42 گلگت بلتستان کے 22 افرادشامل ہیں۔ مجموعی طور پر پورے ملک میں اب تک 12 ہزار 703 لوگ زخمی ہوئے جن میں سندھ کے 8321، پنجاب کے 3844، خیبرپختونخوا کے 348، بلوچستان کے 164، آزاد جموں و کشمیر کے 21 اور گلگت بلتستان کے 5 افراد شامل ہیں۔ حالیہ تاریخی مون سون بارشوں کی وجہ سے ملک بھر میں 16 لاکھ 88 ہزار گھر، 246 رابطہ پل، 5 ہزار 735 کلومیٹر پر محیط سڑکیں اور 7 لاکھ 50 ہزار مویشی سیلابی ریلوں کی نذ رہوئے۔ کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بعض علاقوں جیسے سوات میں انسانی غفلت کے باعث تباہی آئی جہاں دریا میں غیر قانونی طور پر ہوٹل تعمیر کیے گئے۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی وہ دریاوں میں زمین کے استعمال سے متعلق زوننگ قوانین و ضوابط پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ مستقبل میں ایسی کسی بھی تباہی سے بچا جاسکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ایسے معاملات پر سیاست بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ چند روز پہلے سیلاب زدگان کے ریسکیو اور ریلیف کی کوششوں کو تیز کرنے کیلئے وزیراعظم نے نیشنل فلڈ ریسپانس اینڈ کوارڈینیشن سینٹر(این ایف آر سی سی) قائم کیا۔ این ایف آر سی سی کے حکام نے کابینہ کو بتایا کہ اندازے کے مطابق ملک بھر میں زیرِ آب رقبے کا 80 سے 90 فیصد گندم کی کاشت کے لیے موزوں بنایا جاسکے گا، بصورتِ دیگر ملک میں خوراک کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے بی آئی ایس پی کے ذریعے12 لاکھ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں ترجیحی بنیادوں پر 25 ہزار روپے فی خاندان فلڈ ریلیف کیش کی تقسیم یقینی بنانے کا اہتمام کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم نے ابتدائی طور پر 28 ارب روپے مختص کیے۔ اب تک 20 ارب روپے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کیے جاچکے ہیں جبکہ بقیہ 8 ارب روپے اگلے تین دنوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اس فلڈ ریلیف کیش کا 55 فیصد بلوچستان میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں میں اضافے کو مدِنظر رکھتے ہوئے وفاقی کابینہ نے بی آئی ایس پی کے ذریعے تقسیم کی جانے والی 28 ارب روپے کی رقم کو بڑھا کر 70 ارب روپے کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ نے اس رقم کو شفاف طریقے سے سیلاب زدگان تک پہنچانے کے لیے حکمت عملی کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی۔ وزیراعظم نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے سندھ کو 15 ارب روپے، بلوچستان کو 10 ارب روپے، خیبرپختونخوا کو10 ارب روپے جبکہ گلگت بلتستان کو 3 ارب روپے کی مالی امداد دینے کا بھی اعلان کررکھا ہے۔ وفاقی حکومت این ڈی ایم اے کے ذریعے سیلاب میں جاں بحق افراد کے خاندانوں کو 10 لاکھ فی کس کی مالی امداد بھی مہیا کردی ہے۔ وزیراعظم نے وزیراطلاعات و نشریات، مریم اورنگزیب اور وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کی کاوشوں کو سراہا۔جنہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں ملکی اور عالمی سطح پر میڈیاپر موثر انداز سے آگاہی مہم چلائی۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے نکاسی آب کا موثر نظام اور بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر ناگزیر ہے۔ وزیراعظم نے وزارتِ اطلاعات و نشریات، وزارتِ موسمیاتی تبدیلی،وزارتِ مواصلات، وزارتِ توانائی، اقتصادی امور ڈویژن ، پلاننگ کمیشن، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ، وزارتِ ریلوے اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے حکام کی بھی ستائش کی جو سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات کم کرنے اور آفت میں گِھرے ہم وطنوں کی آگاہی، ریلیف اور ریسکیو کے لیے دن رات کا م کررہے ہیں۔ وزیرِ ریلوے و ہوابازی خواجہ سعد رفیق نے کابینہ کو بتایا کہ پاکستان ریلوے کی چاروں لائینز سیلابی ریلے سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں اورکوئٹہ۔سبی سیکشن میں ایک رابطہ پل تباہ ہونے کی وجہ سے ریلوے کے آپریشنز تاحال بند ہیں۔ وزیرِ توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کابینہ کو بتایا کہ بلوچستان کی810 میگا واٹ کی تین بڑی بجلی کی ٹرانسمیشن لائینز میں سے دو بحال کردی گئی ہیں۔ وزارتِ توانائی نے کابینہ کو بتایا کہ ملک بھر میں صرف وہ ہی گرڈ اسٹیشنز بند ہیں جو ابھی تک زِیر آب ہیں۔ اِس موقع پر وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سندھ میں سیلاب کی صورتحال اور امدادی سرگرمیوں کے بارے کابینہ کو آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ این ڈی ایم اے اورپی ڈی ایم ایز کے باہمی رابطے اور تعاون سے صوبائی حکومتوں کو سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے خیمے اور مچھر دانیاں ترجیحی بنیادوں پر مہیا کی جائیں گی۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میںاین ڈی ایم اے او رتمام پارٹیوں کے نمائندگان کا ہنگامی اجلاس آج بروز بدھ طلب کرلیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر منصوبہ بندی اور چیئرمیناین ڈی ایم اے کو فوری کراچی روانہ ہونے کا حکم دیا تاکہ سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں کو بہتر بنایا جاسکے۔ کیونکہ سندھ سیلاب کی تباہ کاریوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔ اس سلسلے میں چیئرمین این ڈی ایم اے نے کابینہ کو بتایا کہ اب تک سندھ میں 24ہزار خیمے مہیا کیے جاچکے ہیں۔ وزیراعظم نے عالمی برادری خاص طور پر چین، ترکی، متحدہ عرب امارات، جاپان، ازبکستان، قطر، فرانس اور ترکمانستان کے ساتھ ساتھUNICEFاور UNHCR کا شکریہ ادا کیا ہے جن کی طرف سے سیلاب متاثرین کیلئے امدادی اشیا پاکستان پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 5 کروڑ ڈالر کا امدادی سامان بھیجا ہے۔ ترکی کی جانب سے ضروری امدادی سامان کی پہلی کھیپ دو دن قبل موصول ہوئی۔ چین نے اپنی امدادی رقم میں 40 کروڑ یوآن کا اضافہ کیا ہے، جبکہ برطانیہ نے امدادی رقم کو 15 لاکھ سے بڑھا کر 1 کروڑ 50 لاکھ پاونڈ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ نے 3 کروڑ ڈالر اور پرنس آغا خان نے 1 کروڑ ڈالرکی امداد کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب امدادی پروگرام کا آغاز کررہا ہے۔ جبکہ قطری امیر اور اماراتی صدر نے ہر قسم کی مدد کا وعدہ کیاہے۔ ورلڈ بینک ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور جائیکا پاکستان کو اس آفت سے نمٹنے کے لیے امداد مہیا کررہے ہیں۔ 2010 کے سیلاب کے دوران اعلی غیر ملکی شخصیات نے پاکستان کا دورہ کیا اور سیلاب زدگان کی بحالی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ موجودہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔اس لیے میں ہر روز ذاتی طور پر اعلی غیر ملکی شخصیات کو دوبارہ پاکستان کا دورہ کرنے پر قائل کررہا ہوں۔ کیونکہ ہم سب مل کر ہی اس آفت پر قابو پاسکتے ہیں۔ آئیے ہم اس چیلنج کو قبول کریں اور اپنے دکھی ہم وطنو کی بحالی اور خدمت میں جت جائیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر غیر ملکی میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرکے اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کی۔ وزیراعظم نے پاکستانی مخیر حضرات اور پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور ملک کے دیگر چیمبر آف انڈسٹریز کا بھی شکریہ ادا کیا جو سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے وزیرِ اعظم فلڈ ریلیف فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی کاوشوں کے باعث پاکستا ن بھر میں سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کا کام ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں قومی میڈیا کے کردار کو بھی سراہا جنہو ں نے دنیا بھر کو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی اصل صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے وزرائے اعلی، چیف سیکریٹریز اور تمام صوبائی محکموں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہو ں نے سیلاب میں پھنسے افراد کے ریسکیو اور ریلیف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔وزیراعظم نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کرخلقِ خدا کی خدمت کے لیے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو مل جل کرکام کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک قومی المیہ ہے جس سے نبردآزما ہونے کے لیے تمام جماعتوں کو قومی جذبے سے سرشار ہوکر اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔دشواریوں کے باوجود ہمیں قومی وحدت کا مظاہرہ کرکے مشکل میں گِھرے ہم وطنو کی خدمت کو یقینی بنانا ہے۔اعلامیہ کے مطابق وفاقی کابینہ نے اقتصادی ابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی 30-08-2022 کے اجلاس میں لئے گئے فیصلے کی توثیق کی، کابینہ نے این ایچ اے سے متعلق بزنسن پلان سمیت دیگر فیصلوںکی توثیق کی۔