مغربی لابی نے ایجنڈے کے تحت ٹرانس جینڈر قانون پاکستان پر تھوپا اور ملک کی حکمران سیاسی جماعتیں ان کی آلہ کار بنیں
تمام مذہبی جماعتوں، علما کرام اور دینی و نظریاتی فکر کی حامل شخصیات نے اس قانون کو مسترد کر دیا
سیکولر طاقتوں نے پہلے ملک کی معیشت تباہ کی ، اب وہ ہماری نظریاتی اساس پر حملے کر رہے ہیں۔ امیر جماعت کی منصورہ میں پریس کانفرنس
مشاورتی اجلاس میں7اکتوبر کو مسجد شہدا کے سامنے مال روڈ پر ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف احتجاج کا فیصلہ
لاہور (ویب نیوز)
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر قانون مکمل طور پر غیر شرعی، غیر قانونی، اسلامی معاشرت پر حملہ اور ملک میں عریانی و فحاشی کا راستہ کھولنے کی سازش ہے۔ مغربی لابی نے ایجنڈے کے تحت ٹرانس جینڈر قانون پاکستان پر تھوپا اور ملک کی حکمران سیاسی جماعتیں ان کی آلہ کار بنیں۔ تمام مذہبی جماعتوں، علما کرام اور دینی و نظریاتی فکر کی حامل شخصیات نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہے۔ حکومت نے 7اکتوبر تک ٹرانس جینڈر قانون واپس نہ لیا تو قومی اسمبلی، سینیٹ کے ساتھ ساتھ چوکوں چوراہوں میں بھی احتجاج ہو گا۔ سیکولر طاقتوں نے پہلے ملک کی معیشت تباہ کی اور اسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا غلام بنایا اب وہ ہماری نظریاتی اساس پر حملے کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ نائب امرا لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، پیر صفدر شاہ گیلانی، علامہ عارف حسین واحدی، حافظ کاظم رضا نقوی، علامہ توقیر عباس، آغا شفقت عباس، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور دیگر قائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ قبل ازیں انھوں نے مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں، علما اکرام ، مدارس کے سربراہوں اور وکلا کے مشاورتی اجلاس کی صدارت کی جس میں تمام شرکا نے فیصلہ کیا کہ 7اکتوبر کو مسجد شہدا کے سامنے مال روڈ پر ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف احتجاج ہو گاجس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ہم نے حکومت کو غیر شرعی قانون واپس لینے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔ حکومت جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے پیش کیا گیا ترمیمی بل منظور کرے۔ انھوں نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی کسی صورت بھی خواجہ سرائوں کے حقوق کی مخالف نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ کمیونٹی کو مکمل حقوق ملیں۔ مگر جو قانون 2018ء میں ن لیگ کی حکومت کے آخری دنوں میں جلد بازی میں پاس ہوا وہ کسی صورت بھی خواجہ سرائوں کے حقوق کا محافظ نہیں بلکہ اللہ کی مخلوق میں انسانوں کو اپنی مرضی سے جنس تبدیلی کے اختیارات دیتا ہے۔ یہ قانون ایک فتنہ اور فساد ہے اور اس سے معاشرے میں بگاڑ کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیںہو گا۔ انھوں نے کہا کہ حکمران جماعتیں سیکولرازم کے ایجنڈے کی تکمیل میں ایک ہیں اور ان کی لڑائی صرف اور صرف اپنے مفادات تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں جماعتوں کے دور میں ملک میں ایسے قوانین پاس ہوئے جو آئین کے خلاف ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت ملک میں کوئی بھی غیر اسلامی قانون نہیں بن سکتا۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا جو ہمارے خاندانی نظام پر حملہ ہے۔ پی ٹی آئی، ن لیگ، پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ نے ایف اے ٹی ایف کی تابعداری میں بھی مل کر ایسے قوانین کو اپنایا جن سے آئی ایم ایف کا ملک پر کنٹرول مزید مضبوط ہوا۔ آج ہم اپنے فیصلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی مرضی کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 2018ء میں جلد بازی میں قانون پاس ہوا مگر جماعت اسلامی مسلسل اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بل کو واپس لینے کے لیے مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر، علامہ راجہ ناصر عباس اور تمام دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے بھی بات کریں گے۔ٹرانس جینڈر قانون پر مشاورتی اجلاس میں نائب امرا جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم، ، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی جاوید قصوری، مرکزی رہنما جماعت اسلامی حافظ محمد ادریس ، متحدہ علما کونسل کے رہنما مولانا عبدالرئوف ملک، تنظیم اسلامی کے رہنما آصف حمید، تحریک حرمت رسول کے رہنما قاری یعقوب شیخ ، جمعیت علما پاکستان کے رہنما پیر سید صفدر شاہ گیلانی، جمعیت اہل حدیث کے رہنما علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، اسلامی تحریک کے رہنما علامہ عارف حسین واحدی،جامعہ رحمانیہ کے رہنما حافظ عبدالرحمن مدنی، متحدہ جمعیت اہل حدیث کے رہنما مولانا نعیم بادشاہ، اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنما حافظ زبیر احمد ظہیر، شیعہ علما کونسل کے رہنما حافظ کاظم رضا نقوی، ڈاکٹر محمد امین، جامعہ اشرفیہ کے رہنما حافظ شاہد عبید، پاکستان شریعت کونسل کے رہنما مولانا ڈاکٹر محمد سلیم، جامعہ عروة الوثقیٰ کے رہنما آغا توقیر عباس، اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ، حافظ عبدالرحمن انصاری ایڈووکیٹ اور ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ شریک ہوئے۔