- گاڑی کے لئے رقم دینے کے معاملے پر بنکوں کا ایک بڑا اسکینڈل ہے صارف کے نام پر لون جاری کر کے رقم کمپنی کو دے دی جاتی ہے،سلیم مانڈوی والا
- حکومت نے کار ساز کمپنیوں کے حوالے سے سختی نہ کی تو ہم حکومتی اداروں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے، چیئرمین کمیٹی نور عالم خان
اسلام آباد (ویب نیوز)
پارلیمینٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایف بی آر سے نان کسٹم گاڑیوں کا ڈیٹامانگ لیا، سرکاری اداروں کو گاڑیوں کے نام نہاد مینوفیکچرز کو پالیسی اور دستاویزات میں ” اسمبلرز ” درج کرنے کی ہدایت کردی۔” اسمبلرز ” کی جانب سے گاڑی پر اضافی قیمت کی وصولی کو بھتہ قراردے دیا گیا ، کمیٹی نے عام شہریوں کے لئے 600سے1300سی سی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹیز اور ٹیکس کم کرنے کی سفارش بھی کردی جب کہ وزارت تجارت وزارت صنعت اور ایف بی آر کو آٹوموبائل کی مجموعی پالیسی پر نظر ثانی کے لیے ایک ماہ میں ورکنگ پیپرز تیار کرکے کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ گاڑیاں اسمبلڈ کرنے والی کمپنیاں ایک اور مہلت کے باوجود خریداروں کے بکنگ کی مد میں جمع اصل زر اور اوپن مارکیٹ میں ان رقوم کی سرمایہ کاری کی تفصیلات پیش کرنے میں ناکام ہوگئیں ۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اسٹیٹ بنک کی نامکمل بریفنگ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایک کمپنی کے علاوہ کسی کمپنی نے خریداروں کی جمع شدہ رقوم سے درست آگاہی نہیں دی، اسٹیٹ بنک کی جانب سے پی اے سی کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ پی اے سی نے کمپنیوں کو سو فی صد ادائیگیوں کرنے والے خریداروں کو بغیر کسی اضافی قیمت کے فوری گاڑیاں دینے کی ہدایت کردی اور انتباہ کیا ہے کہ اس ہدایت پر عمل نہ کیا تو سختی سے پیش آئیں گے ۔کمیٹی نے مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سگریٹ پر ٹیکس تفاوت پر بدھ کو ایف بی آر سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ منگل کو پی اے سی کا اجلاس چیئرمین نورعالم خان کی صدارت میں ہوا۔ارکان نے نورعالم خان کو وفاقی وزیرکا سٹیٹس ملنے پر مبارکباد دی، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پہلے چیئرمین پی اے سی ہیں جنہیں وفاقی وزیر کی حثیت ملی ہے۔ اجلاس میں گاڑیوں کی ڈیرھ ڈیرھ سال تک ادائیگی کے باوجود ڈیلیوری نہ ہونے ،ٹیکس میں تفاوت، بڑی کمپنیوں کی جانب سے ایم جی گاڑی کی خلاف ضابطہ درآمد ، صارفین کے رقوم کے حجم ،کمپنیوں کی ٹیکس ادائیگی و دیگر معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری انڈسٹری نے کہا کہ ساٹھ دنوں میں گاڑی کی ڈیلیوری ضروری ہے ورنہ کمپنی کو خریدار کو تین فی صد رقم واپس کرنا ہوگی۔ کمپنیاں پچاس فی صد گنجائش کی بنیاد پر چل رہی ہیں جب کہ بکنگ وسیع پیمانے پر کی گئی ہیں ۔ فل پیمنٹ لینے پر گاڑی کی فوری ڈیلیوری ضروری ہے ۔سلیم مانڈوی والا نے کہ گاڑی کے لئے رقم دینے کے معاملے پر بنکوں کا ایک بڑا اسکینڈل ہے صارف کے نام پر لون جاری کر کے رقم کمپنی کو دے دی جاتی ہے اور وہ پورے سال گاڑی کی ڈیلیوری نہیں مگر بنک اس صارف سے اضافی قیمت کی وصولی شروع کرتا ہے جب کہ کمپنیاں اس رقم پر بھاری منافع کمارہی ہیں ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کہا کہ اسٹیٹ بنک کی جانب سے گاڑیاں اسمبلڈ کرنے والی کمپنیوں کے پاس صارفین کے اصل زر کو چھپایا گیا صرف کھاتوں کی رقم سے آگاہی دی جب کہ مارکیٹ میں صارفین کی رقوم کی سرمایہ کاری کے اعدادو شمار نہیں دیئے گئے ۔ پی اے سی کو سٹیٹ بنک نے گمراہ کیا ہے ۔ پی اے سی کے چیئرمین نے انجیئنرنگ بورڈ کے سی ای او کو اجلاس کو غیرسنجیدگی سے لینے پر جھاڑ پلادی۔ سی ای او کی جانب سے سیکرٹری صنعت سے اشاروں کنایوں میں بات کی جارہی تھی نورعالم نے کہا کہ یہ کسی کو انکھ مار کر بات کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ برجیس طاہر نے کہا اس طرح کی حرکتوں کی مزمت کرتا ہوں ۔ متعلقہ سی ای او بار بار معذرت کرتے رہے ،نثار چیمہ نے کہا کہ افسران کا رویہ انتہائی نامناسب ہے، پی اے سی میں انکھ مارنے اشارہ بازی کو جرم قراردیا جائے ۔ اجلاس میں گاڑیوں اسمبلرز کے نمائندے اپنے حسابات سے آگاہ کرنے میں ناکام ہوگئے جب کہ ایک کمپنی کیجانب سے مالک کے پیش نہ ہونے پر اس کے نمائندے کو سننے سے انکارکردیا گیا ۔ نورعالم خان نے کہا اگر کسی سیاسی جماعت کسی با اثر سیا ستدان کسی اور شخصیت یا سرکاری افسر نے ان کمپنیوں کی مدد کی کوشش کی تو ایسے لوگوں کو بے نقاب کردیا جائے گا۔ حکام نے بتایا کہ گاڑی کا بیشترسازوسامان پرزے انجن دیگر پارٹس باہر سے آرہے ہیں اور پاکستان میں صرف ان کو جوڑنے کا کام ہورہا ہے ۔انجن کو کھول کر لانے سے ڈیوٹی بھی بچائی جارہی ہے مکمل طور پر کوئی گاڑی تیار ہورہی ہے نہ مقامی پارٹس کو استعما ل کیا جا رہا ہے اور آٹو موبائل پالیسی کے کئی اہم نکات پر عملدرآمد ہی نہیں ہورہا ہے ۔ پی اے سی نے ملک میں گاڑیوں کے حوالے سے کمپنیوں کے لئے مینوفیکچرنگ کہنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کو ،، اسمبلرز ،، قراردے دیا ہے ۔ سیکرٹری انڈسٹری نے انکشاف کیا کہ کمپنیوں کی جانب سے کمرشل بنیاد پر ایم جی گاڑیاں پالیسی کے برعکس درآمدکی جارہی ہیں ۔ ارکان نے کہا کہ بچوں کے سکولوں اور سوداسلف لانے کے سلسلے میں مڈل کلاس کی فیملیز گاڑیوں کے ماڈلز کو تبدیل کردیا گیا ہے اور یہی گاڑی اب 23اور24لاکھ میں فروخت کی جارہی ہے یہی وجہ ہے سڑکوں پر ایک ایک موٹر سائیکل پر چار چار بچے بیٹھے ہوتے ہیں جن کو سکول پہنچایا جارہا ہوتا ہے ۔ گاڑیاں اسمبلڈ کرنے والی کمپنیاں پاکستانیوں کو تانگے پر لے آئی ہیں ۔نورعالم نے کہا کہ کمپنیوں کی ڈرامہ بازی کو مزید نہیں چلنے دیں گے تمام وزارتیں ایف بی آر مل کر پالیسی سے متعلق ورکنگ پیپرز ایک ماہ میں کمیٹی میں پیش کریں ۔عام آدمی کو باہر سے گاڑی منگوانے کے لئے ڈیوٹی اور ٹیکس میں چھوٹ دی جائے ۔حکومت نے کمپنیوں کے حوالے سے سختی نہ کی تو ہم حکومتی اداروں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے، مزید ان کمپنیوں کا عوام پر ظلم برداشت نہیں کرسکتے ۔ تمام کھاتوں کی مکمل تفیصلات پیش کی جائیںگی۔ کوئی بھی شہری بیس فیصد سے زاید ادائیگی نہ کرے ۔کمپنی ساٹھ دنوں میں گاڑی دینے کی پابند ہے سوفی صد ادائیگی کرنے والوں کا اس کی ڈیل کے مطابق فوری گاڑی دی جائے۔ کوئی کسی کمپنی کو مینوفیکچر نہ لکھے یہ اسمبلرز ہیں۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا ریاکارڈ پیش کیا جائے۔ اس حوالے سے کسی علاقے کو استثنی حاصل نہیں ہے۔ تمباکو پر نئے ٹیکس کے معاملے پر بھی کمیٹی کو بدھ بریف کیا جائے۔