عمران خان پر فائرنگ/  ارشد شریف قتل… تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے،وزیراعظم کا چیف جسٹس کو خط

وزیر آباد میں  فائرنگ کے افسوسناک واقعے سے ملک ہیجانی کیفیت اور امن وامان کے بحران کا شکار ہے

پنجاب حکومت کا تحقیقات کے مروجہ طریقہ کارکو نہ اپنانا بدنیتی کا مظاہرہ ہے، وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

وزیراعظم شہباز شریف کا چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو دوسرا خط ، عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کے حقائق جاننے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کر دی۔ خط میں کہا گیاہے کہ  وزیر آباد میں  فائرنگ کے افسوسناک واقعے سے ملک ہیجانی کیفیت اور امن وامان کے بحران کا شکار ہے،پنجاب حکومت کا تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کے مروجہ طریقہ کار نہ اپنانا بدنیتی کا مظاہرہ ہے، وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی۔وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے لکھے گئے خط میں  کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے،کمیشن پانچ سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے،کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی؟،کارواں کی حفاظت کے لئے مروجہ حفاظتی اقدامات اور سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز لاگو کئے گئے؟ اور کیا ان پر عمل کیا گیا؟ ،حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں؟ ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، ان کے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟   قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا؟  وقوع کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے شہادتیں جمع کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟   اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں؟  ضابطے کی ان کوتاہیوں کا ذمہ دار کن انتظامی حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا؟ وزیراعظم  نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ کیا وقوعہ کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں؟ اور ایسا کیوں کر رہے ہیں؟  کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی پی ٹی آئی چیئرمن کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا؟  ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں ؟  قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس درخواست پر عمل پر وفاقی حکومت مشکور ہوگی اس مقصد کے حصول میں وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی ۔ خط کے مطابق وزیر آباد میں عمران خان کے جلوس میں فائرنگ کے افسوسناک واقعے سے ملک ہیجانی کیفیت اور امن وامان کے بحران کا شکار ہے،پی ٹی آئی لیڈرز زہر آلود تقاریر کر رہے ہیں، پرتشدد ہنگامہ آرائی سے ریاست افراتفری اور شہریوں کا جا ومال کو خطرات ہیں،پاکستان اور عالمی میڈیا میں اس کی کوریج ہو رہی ہے،72 گھنٹے گزرنے پر ایف آئی آر نہ ہوئ،پی ٹی آئی کے ماتحت پنجاب حکومت نے بدقسمتی سے تحقیقات میں ان قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جن پر ایسے واقعات میں عمل کیا جاتا ہے،افسوسناک امر ہے کہ کرائم سین (جائے وقوعہ)کو محفوظ نہیں کیاگیا،جس کنٹینر پر یہ واقع ہوا، لوگ زخمی ہوئے، اسے بھی فارنزک کے لئے تحویل میں نہیں لیاگیا،پی ٹی آئی چیئرمین کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی نہیں ہوئی، عمران خان کو ایک پرائیویٹ ہسپتال لیجایا گیا جو قانون کے مطابق میڈیکو لیگل کا پروسیجر نہیں۔  وزیراعظم  کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کے بعد جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے شک ہے کہ پنجاب حکومت اور اس کے ذمہ دار شہادتوں سے گڑبڑ کر سکتے ہیں تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کے مروجہ طریقہ کار نہ اپنانا بدنیتی کا مظاہرہ ہے،  وفاقی حکومت اس بارے میں پہلے ہی خط لکھ کر صوبائی انتظامیہ کو اپنے سنگین تحفظات سے اگاہ کر چکی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی سرپرستی میں شرپسند نجی و سرکاری عمارتوں، گورنر ہائوس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں، ریاستی اداروں خاص طور پر مسلح افواج کے خلاف کردار کشی اور بے بنیاد الزامات کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مسلح افواج پر وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر سازش کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، درست حقائق کے تعین اور عوامی اعتماد کی خاطر وفاقی حکومت کی رائے میں سپریم کورٹ کا کمیشن بننا ضروری ہے ، سپریم کورٹ کا کمشن ذمہ داروں کا تعین کرے، اصل حقائق سامنے لائے،  سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، موجودہ حالات امن عامہ اور پاکستان کی ریاستی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں، ان حالات میں وفاقی حکومت کی درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمشن بنایا جائے۔

 وزیراعظم شہباز شریف کا چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو خط، سینیئر صحافی اور اینکر ارشد شریف کے جاں بحق ہونے کے حقائق جاننے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کر دی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے کمیشن کی تشکیل ضروری ہے، وفاقی حکومت کمیشن کو بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمشن بنایا جائے،کمشن پانچ سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے، ارشد شریف نے اگست 2022 میں بیرون ملک جانے کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا، ارشد شریف کی بیرون ملک روانگی میں کس نے سہولت کاری کی، کوئی وفاقی یا صوبائی ایجنسی، ادارہ یا انتظامیہ ارشد شریف کو ملنے والی جان کو خطرے کی کسی دھمکی سے آگاہ تھے؟  اگر ارشد شریف کی جان کو خطرہ کی اطلاع تھی تو اس سے بچائو کے لئے کیا اقدامات کئے گئے؟ خط میں  وزیراعظم  نے مزید کہا کہ وہ کیا حالات اور وجوہات تھیں جس کی بنا پر ارشد شریف متحدہ عرب امارات سے کینیا گئے؟  فائرنگ کے واقعات کی اصل حقیقت کیا ہے جن میں ارشد شریف کی موت ہوئی؟ کیا ارشد شریف کی موت واقعی غلط شناخت کا معاملہ ہے یا پھر یہ کسی مجرمانہ کھیل کا نتیجہ ہے۔  وزیراعظم  کی جانب سے لکھے گئے خط کے مطابق ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے کمیشن کی تشکیل ضروری ہے، اس ذمہ داری کی انجام دہی میں وفاقی حکومت کمیشن کو بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نے خط میں چیف جسٹس کو بتایا کہ  ارشد شریف کے جاں بحق ہونے کے افسوسناک واقعے کے فوری بعد تجربہ کار افسران پر مشتمل کمیٹی فوری طور پر کینیا بھجوائی گئی، ارشد شریف کی پاکستان سے روانگی سے قبل رابطوں کی تحقیق کرنا ضروری ہے، وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے ریٹائر جج صاحب پر مشتمل کمیشن بنایا تھا، ارشد شریف کی والدہ صاحبہ نے آپ سے استدعا کی ہے، ہم اس استدعا کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔  وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ارشد شریف کے جاں بحق ہونے پر وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں پر شکوک وشبہات ظاہر کئے گئے، عوامی اعتماد کی بحالی کے لئے سپریم کورٹ کا کمیشن بنایا جانا ضروری ہے، غیرجانبدار باڈی نے تحقیقات نہ کیں تو طویل المدت بنیادوں پر نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔

#/S

#/S