سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیخلاف کیس میں آج(بدھ کو) ہونے والے سیمی فائنل میچ کے تذکرے
امید ہے ٹی20 ورلڈ کپ میں کرکٹ ٹیم کی جانب سے اچھی خبر آئے گی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
اگر برا نہ منائیں تو ہم میچ دیکھتے رہیں گے آپ دلائل دیتے رہنا، جسٹس منصور علی شاہ کا وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ
نیب قانون کے تحت رعایت کیوں دی گئی اس کی وضاحت نہیں دی گئی،جسٹس اعجاز الاحسن، سماعت آج(بدھ) تک ملتوی
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب)قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران ٹی20 ورلڈ کپ موضوع بن گیا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سامنے آئے گیی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں سماعت جب آج بروز بدھ تک ملتوی کی گئی تو حکومتی وکیل نے ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستان کے سیمی فائنل میچ کا ذکر چھیڑا اور اس پر بینچ میں شامل تینوں ججوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بدھ کو ایک بجے پاکستان کا سیمی فائنل ہے اس وقت کیس کی سماعت نہ رکھیں، پاکستان کرکٹ ٹیم ایک معجزے کے تحت سیمی فائنل میں پہنچی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے تو میچ کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا، کیوں نہ سیمی فائنل کی وجہ سے بدھ کو کیس کی سماعت نہ رکھیں، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیس پہلے ہی التوا کا شکار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر برا نہ منائیں تو ہم میچ دیکھتے رہیں گے آپ دلائل دیتے رہنا، خواجہ حارث صاحب آج (بدھ) کا دن چھوڑ دیں آپ بھی کرکٹ کے شیدائی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو عدالت کے باہر میچ کے لیے اسکرین لگوا دیتے ہیں، دعا ہے سیمی فائنل میں پاکستان جیت جائے۔ چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ بدھ کو کیس جلدی ختم کر لیں گے تاکہ تب تک میچ اچھے حالات میں چل رہا ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سیمی فائنل میں پہنچنا واقعی ایک قومی معجزہ ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت آج بروز بدھ تک ملتوی کردی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بدعنوانی جمہوریت، معاشرے اور قانون کی حکمرانی کے لیے نقصان دہ ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے اقوام متحدہ کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرارداد پر کرپشن کے سدباب کے لیے دستخط کر رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب قانون میں ترامیم کرکے اقوام متحدہ کی قرارداد کو متاثر کیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا بین الاقوامی قرارداد کو بنیاد بنا کر پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب قانون کے تحت رعایت کیوں دی گئی اس کی وضاحت نہیں دی گئی، کل اگر رشوت لینے کی اجازت دے دی جائے تو کیا اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے تحت تیسرے فریق کو فائدہ پہنچایا جائے تو یہ جرم ہی نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی نہ کرے تو اس سے بھی بنیادی حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آپ کے دلائل سے لگتا ہے پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے کوئی قانون ہی نہیں ہے، جیسے پاکستان جنگل بن چکا ہے۔