لاہور (ویب ڈیسک)

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھائیں، یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سمری سے متعلق صدر عارف علوی مجھ سے بھی بات کریں گے۔ سمری آنے کے بعد میں اور صدر آئین و قانون کے مطابق کھیلیں گے۔ مرضی کا آرمی چیف نہیں چاہتا۔ اللہ تعالی کوگواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے تو اکتوبر میں سوچا ہی نہیں تھا کہ کون آرمی چیف بنے گا۔

نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین نے کہا کہ اہم تقرری کی سمری سے متعلق صدرسے رابطے میں ہوں، سمری سےمتعلق صدر مجھ سے بھی بات کریں گے، اہم تقرری پر وزیراعظم ایک مفرورکے پاس پوچھنے کے لیے جاتا ہے، میں تواپنی پارٹی کا سربراہ ہوں تو صدر مجھ سے ضروربات کرینگے، میں سمجھتا ہوں جوحالات بنادیئے گئے قوم میں جذبہ ہے اسے قبول نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ کوئی سمجھتا ہے اپنا آرمی چیف لا کر ہمیں مار پڑوائے گا تو قوم اس کے خلاف کھڑی ہو گی، مجھ پر جو حملہ ہوا شہبازشریف پورا ملوث تھا،نواز شریف بھی جانتا ہو گا، تسنیم حیدر پر ہے کہ وہ پولیس اور عدالت کو کیسے شواہد پیش کرتا ہے۔ ہمارا ایک ہی مطالبہ ملک میں فوری انتخابات کرائے جائیں، مرضی کا آرمی چیف، چیئرمین نیب نہیں چاہتا، اداروں میں میرٹ چاہتا ہوں، نام فائنل ہونے کے بعد اپنے سیاسی حق کے استعمال کا فیصلہ کریں گے، سمری آنے کے بعد میں اور صدر آئین و قانون کے مطابق کھیلیں گے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف جس کو بھی آرمی چیف لگائے گا وہ متنازع ہو جائے گا، نواز شریف کی پوری کوشش ہے اپنا آرمی چیف لیکرآئے، نواز شریف کو عدالت نے سزا دی وہ ملک سے مفرور ہے، سب سے بڑا ایشو کیا نواز شریف سب سے بڑے ادارے کے سربراہ تعیناتی کرسکتا ہے؟ لیگی قائد جو بھی فیصلہ کرے گا پاکستان کی بہتری کے لیے نہیں کرے گا، میں نوازشریف کی نیت پر شک کر رہا ہوں، نوازشریف ادارے نہیں اپنی ذات کا سوچ رہا ہے، نوازشریف توقع کر رہا ہے کہ جو بھی آئے وہ مجھے نااہل کرے، فوج کا ادارہ ایک ڈسپلن ادارہ ہے اسی لیے بچا ہوا ہے، جب ادارہ آئین سے باہرنکلتا ہے تو پھر ملک میں رول آف لا ختم اور پھر تباہی آتی ہے، میں واحد آدمی ہوں جو کرکٹ میں نیوٹرل امپائر لیکر آیا تھا، آج تک نہیں سنا برطانیہ کا آرمی چیف تبدیل ہو اور اس کی چھوٹی سی خبر بھی چل جائے، پاکستان میں بحث ہی آرمی چیف سے متعلق چل رہی ہے، اللہ تعالی کوگواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے تو اکتوبر میں سوچا ہی نہیں تھا کہ کون آرمی چیف بنے گا۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان اس وقت فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، ملک تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا ہے، میں نے کہا تھا ان سے معیشت نہیں سنبھالی جائے گی ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لیجائیں گے، ان کا 30 سال کا ملک میں برا ریکارڈ ہے، ان دو خاندانوں کی وجہ سے بھارت، بنگلا دیش ہم سے آگے نکل گئے، یہی 2018ء میں ملک کا دیوالیہ نکال کر گئے تھے، میں نے تو جنرل باجوہ کو کہہ دیا تھا اگر سازش کامیاب ہونے دی تو معاشی حالات نہیں سنبھلیں گے، ملک کے حالات دیکھ لیں ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں، گیلپ سروے کے مطابق 88 فیصد سرمایہ کاروں کے مطابق حکومت کی سمت درست نہیں۔

پی ٹی آئی چیئر مین نے مزید کہا کہ میرا دل کہہ رہا ہے 26 نومبر کو تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا، ہماری حکومت کو گرا کر چوروں کو لایا گیا، چوروں نے اپنے 1100 ارب معاف کرائے، چوروں نے لوٹ مار کا راستہ کھول دیا ہے، ملکی معیشت تباہ اور پاکستان تباہی کی طرف جا رہا ہے، 26 نومبر کو زندہ قوم باہرنکلے گی اور بتائے گی ناانصافی قبول نہیں کریں گے، مجھے پتا ہے جن تین لوگوں نے مجھ پرحملہ کیا، اپنی ایف آئی آر درج نہیں کرا سکا یہاں کوئی انصاف نہیں، عوام کا سمندر بتائے گا پاکستان چھوٹے سے چوروں کے لیے نہیں بنا تھا، کبھی کہتے ہیں ان سے بڑے چور کوئی نہیں، اب انہی کو واپس لا کر این آر او دے دیا، ملکی مسائل کا ایک ہی حل صاف اور شفاف الیکشن ہے، ملک میں استحکام ہو گا تومعاشی حالات بہترہوں گے، اگر ہم قرضوں کی قسطیں نہ دے سکے تو ملک میں مہنگائی کی تباہی آئے گی، چوروں کو ڈرہے وہ الیکشن ہار جائیں گے، 26 نومبر کو اپنا اگلا لائحہ عمل دوں گا، ہم ملک میں رول آف لا چاہتے ہیں تحریک نہیں رکے گی، رول آف لا کی وجہ سے یورپ میں کسی کی زمین پرقبضہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی آرمی چیف بنے مجھے فرق نہیں پڑتا، نواز شریف کرپٹ مافیا کے سردار ہے، اس کی نیت پرشک ہے، صدر اور میں نے فیصلہ کیا ہے آئین و قانون کے مطابق ہی کھیلیں گے، ان کے ساتھ عوام نہیں دنیا میں جہاں باہرنکلتے ہیں لوگ انہیں چور، چور کہتے ہیں، یہ 90ء کی دہائی کے سیاستدان ان کا وقت ختم ہوگیا ہے، ان کے پاس کچھ نہیں یہ اسٹیبلشمنٹ سے ہماری لڑائی چاہتے ہیں، ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے، انہوں نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے چوروں کو اوپر لا کر بٹھا دیا، نواز شریف کا ملک سے کوئی مفاد نہیں اسٹیبلشمنٹ کا تو ملک میں مفاد ہے، یہ چاہتے ہیں تحریک انصاف کو کرش کر دیا جائے، اسٹیبلشمنٹ کو سب سے زیادہ ان کی چوریوں کا پتا ہے، کیا اسٹیبلشمنٹ ان کومزید تباہی کا موقع دے گی؟ شہبازاسپیڈ کی بڑی باتیں کرتے تھے آج سب کو شہباز شریف کی قابلیت کا بھی پتا چل گیا۔ شریف خاندان کے ماضی کا سب کوپتا ہے، 1997ء سے 1999ء میں شہباز شریف نے پولیس کے ذریعے 900 لوگوں کو قتل کرایا، قوم کو کہہ رہا ہوں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے 26 نومبر کو باہرنکلیں، یہ توالیکشن سے ڈرے ہوئے ہیں انہوں نے تو باہربھاگ جانا ہے، ملک کا کسان تباہ ہو گیا ہے، ہمارے دورمیں26فیصد انڈسٹریل گروتھ آج صفرپرپہنچ گئی ہے، ملکی ایکسپورٹ مسلسل نیچے کی طرف جارہی ہے، کیا صرف یہ مجھے نظرآرہا ہے کیا طاقتورحلقوں کونظرنہیں آرہا؟

صحافی نے سوال پوچھا کہ سائفرسےمتعلق آپ پرتنقید ہورہی ہے آپ نے بالکل یوٹرن لے لیا جس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کئی دفعہ یوٹرن بہت اچھی چیزہوتی ہے، جن لوگوں نے ہماری حکومت گرائی تھی جب انہوں نے دیکھا عوام ہمارے ساتھ کھڑی ہو گئی تو عقل مندی یہ تھی وہ یوٹرن لیتے، آج یوٹرن نہ لینے سے ملک کا بھرکس نکلا ہے، انٹرنیشنل میڈیا میں بھی ہر جگہ سائفروالا معاملہ اٹھایا، ڈونلڈ لو، پاکستانی سفیراسد مجید کے درمیان سائفر پر بات ہوئی تھی، سائفر کو پارلیمنٹ، کابینہ میں رکھا اور صدر مملکت کو بھیجا، امریکی مداخلت تو ہے، شہبازشریف نے بھی نیشنل سیکیورٹی میٹنگ میں اعتراف کیا، میں نے کہامیری حکومت گرائی تو کیا اب امریکا کے ساتھ تعلقات کوختم کردوں؟

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ میری ذات سے زیادہ اہم ملک کے مفادات ہے، پاکستان کی امریکا کے ساتھ سب سے زیادہ ایکسپورٹ ہوتی ہے، یہ عمران خان کی انا کا نہیں پاکستان کے مفادات کا مسئلہ ہے، پاکستان کی سب سے زیادہ پیسے والی کمیونٹی امریکا میں رہتی ہے، امریکا سے تعلقات،میری ذات نہیں پاکستان کے لوگوں کے مفادات کا مسئلہ ہے، بار بار کہہ رہا ہوں امریکا سے دوستی کریں گے لیکن غلامی نہیں کریں گے، ہم امریکا سے پُرانے حکم دینے والے نہیں جس طرح بھارت کے تعلقات اس طرح کے چاہتے ہیں، یہ پاکستان کا مفاد ہے اب ہم تعلقات کو آگے بڑھائیں۔

خیال رہے کہ 29 نومبر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ندیم رضا عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں، سینیارٹی کا جائزہ لیا جائے تو 6 لیفٹیننٹ جنرلز نئے سپہ سالار کیلئے امیدوار ہیں۔ امیدواروں میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر شامل ہیں۔

واضح رہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے سمری وزیراعظم ہاؤس کو ارسال کر دی گئی اور حکومتی ارکان کہہ رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی رواں ہفتے کے دوران کر دی جائے گی۔