- جمعرات تک جے آئی ٹی ارکان کے ناموں کے حوالے سے ہر صورت آگاہ کیا جائے،ہدایت
- 9رکنی جے آئی ٹی بنائی جائے گی جس میں آئی ایس آئی، آئی بی،ایف آئی اے سمیت پولیس کے اعلیٰ افسران شامل ہوں گے،ایڈیشنل ا ٹارنی جنرل عامر رحمن
- تمام اہل اورقابل افسران کو جے آئی ٹی میں شامل کیا جائے گاجو تمام حقائق کو سامنے لائے گی اور تما م ترکیس کی تفتیش کو آگے بڑھائے گی،عدالت کو یقین دہانی
- ارشد شریف کے ساتھ جو ہوا اس پر بہت افسردہ ہیں، یہ سنجیدہ معاملہ ہے، تنبیہ کررہا ہوں حکومت بھی سنجیدگی سے لے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
- وفاقی حکومت فوری طور پر نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے، عدالت چاہتی ہے آزادانہ ٹیم قتل کی تحقیقات کرے
- ارشد شریف کے قتل کیس کے کچھ گواہان پاکستان میں بھی ہیں، کیا پولیس سے کوئی عدالت آیا ہے؟ کیا رپورٹ تحریر کرنے والے افسران یہاں موجود ہیں؟
- رپورٹ میں ذمے داروں کا نام لکھا ہے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی
- رپورٹ میں درج کرداروں کو نظر انداز کر دیا گیا، تنبیہہ کر رہا ہوں کہ ایسی رپورٹس عدالت میں پیش نہ کریں،ریمارکس
- جس طرح پاکستان سے ارشد کو نکالا گیا، دبئی سے جیسے نکالا گیا وہ رپورٹ میں لکھا ہے، مجھے صرف اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہیے،والدہ
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس میں پولیس کی قائم جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے آج جمعرات تک نئی اسپیشل جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جے آ ئی ٹی میں آئی ایس آئی، پولیس، آئی بی ، ایف آئی اے کے نمائندے شامل کیے جائیں، جے آئی ٹی میں ایسا افسر نہیں چاہتے جو ان کے ماتحت ہو جن کا نام آ رہا ہے، ارشد شریف کے ساتھ جو ہوا اس پر بہت افسردہ ہیں، یہ سنجیدہ معاملہ ہے، تنبیہ کررہا ہوں حکومت بھی سنجیدگی سے لے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کی جس میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔عدالت نے ہدایت کی ہے کہ جمعرات تک جے آئی ٹی ارکان کے ناموں کے حوالہ سے ہر صورت آگاہ کیا جائے۔ جبکہ ایڈیشنل ا ٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ پہلے پولیس کی جانب سے پانچ رکنی جے آئی ٹی بنائی گئی تھی تاہم اب 9رکنی جے آئی ٹی بنائی جائے گی جس میں آئی ایس آئی، آئی بی،ایف آئی اے سمیت پولیس کے اعلیٰ افسران شامل ہوں گے اور تمام اہل اورقابل افسران کو جے آئی ٹی میں شامل کیا جائے گااور یہ جے آئی ٹی تمام حقائق کو سامنے لائے گی اور تما م ترکیس کی تفتیش کو آگے بڑھائے گی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے، عدالت چاہتی ہے آزادانہ ٹیم قتل کی تحقیقات کرے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ارشد شریف کی والدہ کا موقف بھی سنیں گے۔سماعت کے دوران صحافی حسن ایوب نے روسٹرم پر آ کر بتایا کہ سپریم کورٹ میں ارشد شریف کی والدہ کو لانے کے لیے لفٹ نہیں تھی۔صحافی حسن ایوب نے کہا کہ پولیس نے ارشد شریف کے اہلخانہ سے درست رویہ نہیں اپنایا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہیل چیئر کے لیے لفٹ تبدیل کر رہے ہیں، اس پر معذرت خواہ ہوں، پولیس والا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ارشد شریف کے اہلخانہ کو فراہم کر دی گئی ہے، دفتر خارجہ ارشد شریف قتل کی تحقیقات کے لیے ہر حد تک معاونت کر رہا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ مبینہ شوٹر کینین پولیس کا رکن ہے یا نہیں؟جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کینین پولیس کے 3 اہلکاروں کے انٹرویو رپورٹ میں شامل کیوں نہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں، فائرنگ کرنے والے 3 اہلکاروں سے ٹیم کی ملاقات کرائی گئی، چوتھے اہلکار کے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمن نے کہاکہ کینیا میں متعلقہ وزیر اور سیکریٹری کابینہ سے ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں، ہائی کمیشن متعلقہ حکام سے رابطے میں ہے، ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنے والے کون ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس اہلکار ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رات ایک بجے عدالت کو رپورٹ فراہم کی گئی ہے، ارشد شریف کا بہیمانہ قتل ہوا، ان کے قتل کا وقوعہ کینیا میں ہے، ان سے تعاون لیا جائے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کیس کے کچھ گواہان پاکستان میں بھی ہیں، کیا پولیس سے کوئی عدالت آیا ہے؟ کیا رپورٹ تحریر کرنے والے افسران عدالت میں موجود ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل عام رحمن نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں ذمے داروں کا نام لکھا ہے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں درج کرداروں کو نظر انداز کر دیا گیا، تنبیہہ کر رہا ہوں کہ ایسی رپورٹس عدالت میں پیش نہ کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ افسوسناک واقعے پر آپ سے بہت معذرت خواہ ہیں، اٹارنی جنرل صاحب، آپ والدہ کی پیش کردہ رپورٹ دیکھیں، آپ کو یقین دلاتے ہیں تحقیقاتی ٹیم بغیر دبائو کے قتل کی تحقیق کرے گی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مسز علوی 2 شہیدوں کی دکھی اور افسردہ ماں ہیں، شکریہ کی ضرورت نہیں، عدالت اپنا فرض ادا کر رہی ہے۔ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ جس طرح پاکستان سے ارشد کو نکالا گیا وہ رپورٹ میں لکھا ہے، دبئی سے جیسے ارشد کو نکالا گیا وہ بھی رپورٹ میں ہے، مجھے صرف اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہیے۔ جسٹس مظاہرنقوی نے کہاکہ آپ کو تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانا ہوگا۔ ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کو بیان پہلے بھی ریکارڈ کرا چکی ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے، ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دئیے ہیں، حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری مقدمہ ہے اس لیے عدالت نے کمیشن قائم نہیں کیا، اسپیشل جے آئی ٹی کی تشکیل کا آج (جمعرات ) تک انتظار کرلیتے ہیں، وزارت خارجہ سے کیامعاونت چاہیے وہ بھی بتائی جائے، وزارت خارجہ دیگر دوست ممالک کا اثر و رسوخ بھی استعمال کرے۔عدالت نے کیس کی سماعت آج (جمعرات ) دن ساڑھے 12بجیتک ملتوی کردی۔