نئی دہلی (ویب نیوز)
بھارتی سپریم کورٹ نے گجرات کے مسلم کش فسادات کی متاثرہ خاتون بلقیس بانو کی وہ درخواست خارج کر دی ہے، جس میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور خاندان کے دیگر افراد کو قتل کرنے والے گیارہ مجرموں کی رہائی کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں دو الگ الگ مقدمے دائر کیے تھے، جس میں سے ایک کو خارج کر دیا گیا ہے جبکہ ایک پر ابھی سماعت ہونی باقی ہے۔ جس کیس کو خارج کیا گیا ہے، اس میں بلقیس بانو نے عدالت عظمی سے یہ استدعا کی تھی کہ وہ اپنے رواں برس مئی کے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، جس میں اس نے مجرموں کی رہائی کے لیے ریاست گجرات کی حکومت سے غور کرنے کو کہا تھا۔عدالت عظمی نے اس سلسلے میں کیا منطق پیش کی ابھی اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں تاہم یہ مقدمہ خارج کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دوسرے کیس میں متاثرہ بلقیس بانو نے اس بنیاد کو چیلنج کیا ہے، جس کے نتیجے میں مجرمان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ اس مقدمے میں ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔سن 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے ساتھ ساتھ ہندو بلوائیوں نے ان کے خاندان کے متعدد افراد کو ان کے سامنے ہی قتل کر دیا تھا۔ اس کیس میں گیارہ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم گجرات کی بی جے پی حکومت نے انہیں اسی برس 15 اگست کو جیل سے رہا کر دیا تھا۔مودی کی مرکزی حکومت نے ان مجرموں کے حوالے سے اس رپورٹ کو منظور کر لیا تھا کہ قید کے دوران ان کے سلوک میں بہتری آئی ہے اس لیے وہ رہائی کے مستحق ہیں۔ حالانکہ ملک کی تازہ ترین پالیسی کہتی ہے کہ گینگ ریپ اور قتل کے مجرموں کو جلدی رہائی نہیں دی جا سکتی۔تاہم سپریم کورٹ نے اس دلیل سے اتفاق کیا کہ اس حوالے سے سن 2008 کی وہ پالیسی ان مجرموں پر عائد نہیں ہوتی ہے، جس کے تحت ایسے مجرموں کی رہائی ممنوع ہے اور ان پر 1992 کی وہ پالیسی نافذ ہوتی ہے، جس کے تحت ہر طرح کے مجرموں کو اچھے سلوک کی بنیاد پر جیل سے جلدی رہا کیا جانے کی بات کہی گئی ہے۔گجرات حکومت کی دلیل ہے کہ اس نے چودہ برس سے زیادہ مدت قید میں گزارنے والے عمر قید سزا یافتہ مجرموں کو معافی دینے کی ریاستی اسکیم کے تحت ہی ان تمام گیارہ افراد کو 15 اگست کو بھارت کی یوم آزادی کے موقع پر رہا کیا تھا۔ان مجرموں کی رہائی کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف گروپوں نے ایک تقریب میں ان مجرموں کا شاندار استقبال کیا تھا۔ انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے، آرتی اتاری گئی اور لوگوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے کہا تھا، "یہ لوگ برہمن ہیں اور اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔”ان مجرموں کی رہائی کے کئی دن بعد بلقیس بانو نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس فیصلے سے سکتے میں ہیں۔ اور اس فیصلے نے عدالت پر ان کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔خیال رہے کہ سن 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران گودھرا میں جس وقت اکیس سالہ بلقیس بانو کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تب وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ان کے سامنے ہی ان کی تین سالہ بیٹی سمیت خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ حملہ آوروں نے ان افراد کے سر کاٹ کے پھینک دیے تا کہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔اس واقعے پر ملک اور بیرون ملک زبردست ردعمل کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی تفتیش کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد گیارہ افراد کو مجرم قرار دیا گیا تھا اور انہیں سن دوہزار آٹھ میں میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔