پریس کی آزادی سے متعلق سالانہ انڈکس میں بھارت80 ویں نمبر سے 150 ویں نمبر پر پہنچ گیا
واشنگٹن (ویب نیوز)
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بھارت میں سات صحافی جیل میں ہیں اور ان میں آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل سمیت چار کشمیری مسلمان شامل ہیں۔ مجموعی طور پر گرفتار سات میں سے پانچ مسلمان ہیں۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)نے ذرائع ابلاغ کی عالمی صورتِ حال پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پریس کے ساتھ اپنے رویے کی وجہ سے بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تنقید بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صحافیوں کے خلاف احتیاطی حراست کے ایک قانون پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) کے نفاذ پر ہو رہی ہے۔ وی او اے کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل کے خلاف مذکورہ قانون کے تحت کارروائی کی گئی، جس کی وجہ سے عدالت کی جانب سے دیگر معاملات میں ضمانت ملنے کے باوجود وہ جیل میں ہیں۔یہ قانون انتظامیہ کو کسی بھی صحافی کو مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک جیل میں رکھنے کا اختیار دیتا ہے۔مذکورہ صحافیوں کے علاوہ منان ڈار، گوتم نولکھا، روپیش کمار اور صدیق کپن بھی جیل میں ہیں۔ان لوگوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے سخت قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ اس دفعہ میں جلد ضمانت نہیں ہوتی۔آصف سلطان کو پولیس نے اگست 2018 میں، فہد شاہ کو رواں سال کے چار فروری کو، سجاد گل کو چھ جنوری کو اور منان ڈار کو گزشتہ سال اکتوبر میں گرفتار کیا تھا۔صدیق کپن کیرالہ کے صحافی ہیں۔ انہیں پانچ اگست 2020 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے واقعے کی کوریج کے لیے دہلی سے ہاتھرس جا رہے تھے۔روپیش کمار ایک آزاد صحافی ہیں۔ ان کو رواں سال جولائی میں جھارکھنڈ کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔گوتم نولکھا ایک سینئر صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ ان 16 افراد میں شامل ہیں جن پر 2018 میں پونے کے نزدیک بھیما کورے گاں میں تشدد کرنے کا الزام ہے۔ وہ 2020 سے جیل میں ہیں۔صحافیوں کی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں حکومت کی جانب سے پریس کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت خود پر تنقید برداشت نہیں کرتی اور جو صحافی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں ان کو پریشان کیا جاتا ہے۔انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت سے تسلیم شدہ صحافیوں کو پارلیمانی کارروائی کور کرنے کی آزادی ہے لیکن حکومت نے اس آزادی کو محدود کر دیا ہے۔ان کے مطابق حکومت نے 2019 میں کرونا وبا کی وجہ سے پارلیمانی کارروائی کی کوریج کے مقصد سے صحافیوں کے پارلیمان میں داخلے کے لیے لاٹری سسٹم نافذکیا، جس کے تحت مختلف زبانوں کے صرف 30 صحافیوں کو ایوان کی پریس گیلری میں جانے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت ایک ہفتے کے لیے ہوتی ہے۔ دوسرے ہفتے میں دوسرے صحافیوں کو اجازت ملتی ہیجب کہ اس پابندی سے قبل لگ بھگ 400 صحافی پارلیمنٹ کی کارروائی کور کرتے تھے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جب کرونا کی وجہ سے عائد کی جانے والی دیگر پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں تو اس پابندی کو بھی ختم کیا جائے۔ان کے مطابق پارلیمانی کارروائی کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا جاتا ہے لیکن اگر ایوان میں زیادہ ہنگامہ ہو رہا ہو تو بعض اوقات ٹی وی بند کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے صحافی ایوان کی حقیقی صورتِ حال سے ناواقف رہ جاتے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پریس کی آزادی کو کم کرنے کی حکومت کی کوششیں جمہوری اصولوں کے منافی ہیں اور صحافی تنظیموں کی جانب سے اس کی مخالف کی جاتی رہی ہے۔صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آٹ بارڈرز (آر ایس ایف) پریس کی آزادی سے متعلق سالانہ 180 ملکوں کی درجہ بندی جاری کرتی ہے جس کے مطابق بھارت 2002 میں 80 ویں نمبر پر تھا جو کہ 2022 میں نیچے جا کر 150 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔حکومت اس درجہ بندی کو مسترد کرتی ہے۔