اروناچل پردیش میں چین اور بھارتی فوجوں کے درمیان حالیہ جھڑپوں سے یہ معاملہ پھر گرم ہو گیا

نئی دہلی (ویب نیوز)

اپوزیشن جماعتیں بھارت چین سرحدی تنازعے پر پارلیمان میں بحث کا کافی دنوں سے مطالبہ کرتی رہی ہیں، تاہم مودی حکومت انکاری ہے۔ اروناچل پردیش میں چین اور بھارتی فوجوں کے درمیان حالیہ جھڑپوں سے یہ معاملہ پھر گرم ہو گیا ہے۔بھارتی پارلیمان میں بدھ کے روز ایک بار پھر سے اس وقت ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی جب حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھارت اور چین کی سرحد پر کشیدہ صورت حال پر بحث کا مطالبہ کیا۔ اس کی وجہ سے اجلاس کو معطل کرنا پڑا جبکہ اپوزیشن نے متحدہ طور پر پارلیمان کے سامنے بطور احتجاج مظاہرہ کیا۔اس احتجاج کی قیادت کانگریس پارٹی کر رہی ہے جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں اس کے اس مطالبے کے ساتھ ہیں کہ چین کے ساتھ سرحدی صورتحال پر وزیر اعظم نریندر مودی کو بیان دینا چاہیے۔ متحدہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے توانگ میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان جو حالیہ جھڑپیں ہوئی ہیں اور اس حوالے سے سرحد پر جو کشیدگی پائی جاتی ہے، اس پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیے۔ تاہم حسب معمول مودی حکومت نے اسے ایک بار پھر مسترد کردیا۔کانگریس کی جانب سے پارٹی کی صدر سونیا گاندھی اس احتجاجی مظاہرے کی قیادت کر رہی تھیں، جن کا کہنا تھا: ”حکومت اپنی ضد پر قائم ہے اور چین کی خلاف ورزیوں پر بحث نہیں کر رہی ہے۔ عوام اور ایوان اصل صورتحال سے واقف نہیں ہے۔ آخر چین نے جو دراندازی کی ہے، اس کا حکومت جواب کیوں نہیں دے رہی؟”اس سے پہلے کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ کے دوران بھی رکن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے حکومت کے رویے پر شدید نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر صورت حال کافی کشیدہ ہے، تاہم حکومت اس پر بات چیت سے بھی گریز کر رہی ہے۔دو روز قبل وزیر خارجہ جے شنکر نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد پر اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے کہ ماضی میں اس سے قبل اتنی تعداد میں کبھی بھی فوج تعینات نہیں تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ”اس پر سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں… تاہم اپنے فوجیوں کے لیے پٹائی کا لفظ استعمال کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے ان کی حوصلہ شکنی ہو تی ہے جو اتنی بلندی پر ملک کی حفاظت پر مامور ہیں۔”یہ بات انہوں نے راہول گاندھی کے اس بیان کے جواب میں کہی تھی کہ مودی حکومت آرام سے بیٹھی رہی، جبکہ توانگ میں بھارتی فوجیوں کو پٹائی لگ رہی تھی۔ انہوں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ چینی فوجی توانگ کے ایک بڑے علاقے کے اندر داخل ہو گئی ہے۔  راہول گاندھی ماضی میں کئی بار مودی حکومت کو اس بات کے لیے چیلنج کرتے رہے ہیں کہ وہ لداخ اور اروناچل پردیش میں سرحدی صورتحال پر بحث کرا کے تو دیکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ لداخ کی مشرقی سرحد پر چینی فوجیوں نے دراندازی کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اس معاملے پر پارلیمان میں بحث اس لیے نہیں چاہتی کیونکہ اگر وہاں صورتحال سے متعلق سچ بات کہی گئی، تو اس سے حکومت کو کافی سبکی اٹھانی پڑے گی۔ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے سابق سکریٹری اور سینیئر صحافی سنجے کپور کہتے ہیں کہ ڈر یہ ہے کہ، اس پر طرح طرح کے سوال اٹھیں گے، بہت ساری کمزوریاں سامنے آ جائیں گی۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کو یہ بھی دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ”ہم قابل ہیں اور ہمیں جوابدہی کی ضرورت نہیں ہے۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر بحث ہوئی تو، ”انہیں بہت سی ایسی چیزیں قبول کرنا پڑیں گی، جو وہ کرنا نہیں چاہتے۔ وہ (چینی فوج) اندر آئے، کہ نہیں آئے اور آئے تو کتنا اندر آئے۔ یہ سب بتانا پڑے گا۔  صورتحال کے بارے میں کسی کو صحیح پتہ نہیں ہے، حکومت کو ہی صحیح بات معلوم ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ سچائی سامنے نہ آنے پائے۔”   ایک سوال کے جواب میں کہ جمہوریت میں ان مسائل پر پارلیمان میں بحث تو ہونی چاہیے، ان کا کہنا تھا، ”یہ سب نظریاتی باتیں ہیں، عملا  ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اب اہم امور کو سوشل میڈیا پر ڈسکس ہوتے ہیں، پارلیمان میں ان پر کہاں بحث ہوتی ہے۔”جب سے توانگ میں بھارتی فوجیوں پر حملے کی بات سامنے آئی ہے اسی وقت سے میڈیا اور پارلیمان میں ہنگامہ برپا ہے۔ حکومت کے مطابق نو دسمبر کو توانگ سیکٹر کے یانگسے علاقے میں چینی فوجیوں نے بھارتی پوسٹ پر حملہ کر کے موجودہ صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ”ہمارے فوجیوں نے عزم مصمم کے ساتھ چینی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔” انھوں نے بتایا تھا کہ ”تصادم کے دوران ہمارے کسی فوجی کی موت نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی سنگین طور پر زخمی ہوا۔” تاہم حزب اختلاف ان کے اس بیان سے مطمئن نہیں ہے۔