سری نگر (ویب نیوز)

مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشمیری صحافی تین دہائیوں سے فوجی ، اقتصادی دبا واور عدم تحفظ کے سائے تلے جی رہے ہیں ۔1990 کے بعد اب تک 20صحافیوں  کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،کچھ عمر بھر کے لئے معذور ہوئے اور کچھ برسوں تک پابند سلاسل رہے ۔قتل کئے جانیوالے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار، مشتاق علی، محمد شعبان وکیل، خاتون صحاف آسیہ جیلانی، غلام محمد لون، غلام رسول آزاد، پرویز محمد سلطان، شجاعت بخاری، علی محمد مہاجن، سید غلام نبی، الطاف احمد فکتو، سیدن شفیع، طارق احمد، عبدالمجید بٹ، جاوید احمد میر، پی این ہنڈو، محمد شفیع، پردیپ بھاٹیہ، اشوک سودھی اور رئیس احمد بٹ شامل ہیں۔رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کرنا، اغوا، قاتلانہ حملے ، گرفتاریاں،پولیس اسٹیشنوں میں طلبی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرناپڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے ۔ بھارتی فورسزنے فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو 4 مارچ 2017کو، عاقب جاوید حکیم کو 2جولائی 2019کو ، خالد گل کو گزشتہ سال6 دسمبرکو اور منان گلزار ڈار کو 10 اکتوبر 2021 کو گرفتار کیا تھا۔انہیں بعد ازاں طویل نظربندی کے بعد رہاکیاگیا۔ 8 اگست 2019 کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کئے گئے ایک اور صحافی قاضی شبلی کو23 اپریل 2020کو رہا کیا گیا۔کشمیری صحافی آصف سلطان ، فہد شاہ ، سجاد گل ، سرتاج الطاف بٹ اور عرفان معراج اب بھی  قیدہیں۔قابض انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی خصوصا مقبوضہ کشمیر کی زمینی صورتحال سے متعلق خبریں اوربھارتی فو ج کی طرف سے تلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹیں منظر عام پر لانے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔صحافی آکاش حسن واس کو نئی دلی ائیر پورٹ کے امیگریشن حکام نے 26 جولائی 2022 کو بغیر کسی وجہ کے کولمبو جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے روک دیاتھا۔اگرچہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی صحافت کے حق سمیت کشمیریوں سے انکا ہر حق چھین لیا ہے تاہم کشمیری آزادی صحافت پر بھارت کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ مقامی صحافتی تنظیموں نے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ کشمیری صحافیوں کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ 5اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کالے قانون کے تحت کشمیری صحافی عرفان معراج کی گرفتاری مقبوضہ علاقے میںانسانی حقوق کے طویل عرصے سے جاری خلاف ورزیوں اور میڈیا پر قدغن اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈائون کی ایک اور مثال ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکر پٹیل نے کہاہے کہ بھارتی حکام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر استثنی کو ختم کرنے کو ترجیح دینی چاہیے جسے انسانی حقوق کے علمبرداروں اور صحافیوں نے بہادری کے ساتھ بے نقاب کیا ہے اور دستاویزی شکل دی ہے ۔