- وزراء افغان حکومت کے خلاف غیرزمہ دارانہ بیانات کا سلسلہ بند کریں
- افغان حکومت نے عدم تعاون کا رویہ اختیار کرلیا تو بہت بڑا خطرہ منڈلانے لگے گا
- امپورٹڈ حکومت کی طرف سے ایک بار پھر امریکا سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون حاصل کرنے کا خطرہ ہے
- پہلے بھی امریکی جنگ میں اگر نیوٹرل رہتے تو حالات بہت بہتر ہوتے،
- قبائلی اضلاع کو این ایف سی ایوارڈ سے بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں نے اپنا حصہ ادا نہیں کیا
- دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر آنے والے خیبر پختونخوا کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں
- فخر ہے کہ امریکا کو ہوائی اڈوں کے معاملے پر ”ایپسلوٹلی ناٹ ” کہا ۔ دہشت گردی کے خلاف قومی سیمینار سے خطاب
اسلام آباد (ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کی پالیسی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ حکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی تو ملک میں انتشار پھیلتا جائے گا، وزراء افغان حکومت کے خلاف غیرزمہ دارانہ بیانات کا سلسلہ بند کریں، افغان حکومت نے عدم تعاون کا رویہ اختیار کرلیا تو بہت بڑا خطرہ منڈلانے لگے گا امپورٹڈ حکومت کی طرف سے ایک بار پھر امریکا سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون حاصل کرنے کا خطرہ ہے ،ایسا کیا گیا تو ملک کو بد امنی سے دوچار کر دیا جائے گا ، امریکی جنگ میں اگر نیوٹرل رہتے تو حالات بہت بہتر ہوتے، قبائلی اضلاع کو این ایف سی ایوارڈ سے بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں نے اپنا حصہ ادا نہیں کیا ۔ دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر آنے والے خیبر پختونخوا کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ،فخر ہے کہ امریکا کو ہوائی اڈوں کے معاملے پر ”ایپسلوٹلی ناٹ ” کہا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو اسلام آباد میں خیبر پختونخوا حکومت اور پی ٹی آئی کے زیر اہتمام دہشت گردی کے خلاف قومی سیمینار سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ عمران خان نے کہا کہ امریکی جنگ میں شامل ہونے سے نقصان زیادہ، معاوضہ معمولی ملا، امریکی جنگ میں اگر نیوٹرل رہتے تو حالات بہت بہتر ہوتے، امریکی جنگ کے اثرات اب تک پاکستان میں موجود ہیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے، اس سے بروقت نہ نمٹا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، اگر یہ جنگ چل پڑی تو سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کا ہوگا، ہمیں عقل سے چلنا پڑے گا، وفاقی گورنمنٹ کو بیٹھ کر اس معاملے پر مسلسل میٹنگ کرنی چاہئیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ نوازشریف اور آصف زرداری جب ملک کے سربراہ تھے تو 400 ڈرون اٹیک کیے گئے، ہمارے کرائم منسٹر ساری دنیا کو خوش آمد کرتے پھرتے ہیں، پاکستان کا وزیر خارجہ ساری دنیا کے چکر لگا رہا ہے مگر افغانستان نہیں جارہا ہماری حکومت آئی تو سب سے پہلے شاہ محمودقریشی کو افغانستان بھجوایا ، وزیر خارجہ کو افغانستان جانا چاہیے تھا، اگر دہشتگردی کی جنگ شروع ہوگئی تو یہ رکے گی نہیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وزرا افغان حکومت کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیان دے رہے ہیں یہ سلسلہ بند کیا جائے ، پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ہم نے ٹی ٹی پی سے بات کی، یہ لوگوں کو گمراہ نہ کریں، خیبر پختونخوا کے لوگوں نے دہشتگردی سے بہت نقصان اٹھایا، بارڈرز کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے، انہوں نے بڑھتی دہشتگردی پر توجہ نہیں دی۔انہوں نے کہا کہ مجھے برا بھلا کہا گیا ،طالبان خان کہا گیا، پاکستان کا سب سے زیادہ نقصان خود کش حملوں نے کیا، قبائلی علاقے کے لوگوں نے جہاد میں شرکت کی، قائداعظم نے 1948میں پاکستانی فوج قبائلی علاقے سے واپس بلوالی تھی، میں کہتا تھا ہمیں امریکا کی جنگ میں نیوٹرل رہنا چاہیے، ہم نے امریکا کی جنگ میں 20سال تک شرکت کی۔عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارے دور میں زراعت میں کسانوں کے اچھے حالات تھے، انہوں نے معیشت پر توجہ نہیں دی، ساری دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، ہمیں بیرونی سازش کے ذریعے گرایا گیا، جب آپ گندا پانی کھڑا رہنے کی اجازت دیتے ہیں تو اس میں مچھر آجاتے ہیں۔وزرخارجہ کیوں دہشت گردی کے خلاف امریکہ سے تعاو ن مانگ رہے انتباہ کرتا ہوں امریکہ ایک بار پھر پاکستان میں مداخلت کی تو ملک میں انتشار پھیلتا جائے گا ۔صوبوں نے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے قبائلی سے تعاون نہیں کیا۔تین فیصد محاصل قبائلی اضلاع کو دینے تھے صرف پنجاب اور کے پی کے نے اپنا حصہ ادا کیا سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے اپنا حصہ ادا نہیں کیا ، ہماری حکومت کو بیرونی سازش کے ذریعے ہٹھا کر معیشت کا بیڑہ غرق کردیا گیا ملک ترجیح اور مسئلہ معاشی استحکام دوسرا ترجیحی مسئلہ دہشت گردی ہے انسداد دہشت گردی کی قومی اتفاق رائے کی پالیسی بنائی جائے یہی متفقہ ریاستی پا لیسی ہوسکتی ہے۔