پارلیمانی جماعتوں کا افغان باشندوں کو بیدخل کرنے کے بارے میں نگران حکومت کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار

بریفنگ کے لیے سینیٹ ہول کمیٹی کے ان  کیمرہ  اجلاس میں اعلیٰ سیاسی عسکری قیادت کو مدعوکرنے کا مطالبہ

قومی اتفاق رائے سے نئی  افغان پالیسی وضع کی جائے موجودہ افغان پالیسی ناکام ہو چکی ہے

کسی غیر منتخب کمیٹی کو اس قسم کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہے ۔ افغان پالیسی پر 20 سالہ تجزیاتی رپورٹ سینٹ میں پیش کی جائے

 دہشت گردوں کو جیل سے رہا اور طالبان سے بات چیت کرنے پر متعلقہ شخصیت ٹی وی پر  قوم سے معافی مانگے

سینیٹر اسحاق ڈار، طاہربزنجو،مولانا عبدالغفورحیدری  دیگر کا اظہار خیال

 پاکستان نے افغان مہاجرین کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا ،سرفرازبگٹی

اسلام آباد (ویب  نیوز)

سینٹ کے اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں نے افغان باشندوں کو پاکستان سے بیدخل کرنے کے بارے میں نگران حکومت کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر بریفنگ کے لیے سینیٹ ہول کمیٹی کا ان  کیمرہ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔ اجلاس میں اعلیٰ عسکری قیادت افغان امور کے ماہرین کو بھی مدعو کیا جائے اور قومی اتفاق رائے سے افغان پالیسی وضع کی جائے موجودہ افغان پالیسی ناکام ہو چکی ہے کسی غیر منتخب کمیٹی کو اس قسم کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہے ۔ افغان پالیسی پر 20 سالہ تجزیاتی رپورٹ سینٹ میں پیش کرتے ہوئے اس کے ثمرات اور مضمرات سے آگاہ کیا جائے جبکہ قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے طالبان سے بات چیت شروع کرنے، اعلی شخصیت کے دورہ کابل اور دہشت گردی میں ملوث مجرمان کی جیلوں سے رہائی کے معاملات پر سابق وزیر اعظم کو ٹی وی پر لا کر قوم سے معافی مانگنے کا کہا جائے ۔ ایوان بالا میں گزشتہ روز مختلف جماعتوں کے ارکان کی افغان مہاجرین کی مختصر عرصہ میں اور بغیر کسی پالیسی کے اعلان کے مہاجرین کو نکالنے کی وفاقی حکومت کی اچانک فیصلے جس سے غیر مہاجرین بری طرح متاثر ہو رہے ہیں سے متعلق تحریک پیش کی گئی محرکین میں سینیٹر شفیق ، سینیٹر مشتاق خان ، سینیٹر طاہر بزنجو اور سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان شامل ہیں ۔ اسرار ترین نے کہا کہ قانونی اور غیر قانونی تارکین وطن میں تمیز کئیے بغیر پولیس والے سب کو پکڑ رہے ہیں جن افغان باشندوں کے پاس کارڈز اور تذکرے موجود ہیں انہیں بھی گرفتار کیا جا رہا ہے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پشتونوں کے بیشتر کاروبار سے افغان باشندے وابستہ ہیں یہی کانکنی ، باغات ، کاشتکاری اور دیگر پیشوں میں ہمارے کاروباروں سے وابستہ ہیں اچانک فیصلے نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے  ۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ اس حوالے سے انسانی حقوق بھی وابستہ ہیں  ۔اس معاملے پر بعض ٹی وی اینکرز زہریلی گفتگو کر رہے ہیں  ۔ اچھی ہمسائیگی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے ۔ افغانستان اور پاکستان کو اختلافی معاملات بات چیت سے حل کرنے چاہئیں اور اپنی سرزمین  کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں ۔ افغانوں نے جانا ہے انہیں عزت و احترام دیں ۔ ہماری افغان پالیسی ناکام ہو چکی ہے عشروں سے یہ پالیسی چلی آ رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اتفاق رائے کی افغان پالیسی کی تشکیل کے لیے ان کیمرہ سینیٹ ہول کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے اعلیٰ عسکری سیاسی قیادت افغان امور کے ماہرین کو مدعو کیا جائے اور تمام شراکت داروں کی تجاویز اور عوامی جذبات کا احساس کرتے ہوئے پالیسی وضع کی جائے ۔ یہ عوامی فیصلے ہوتے ہیں بتایا جائے کہ کیمپوں سے باہر افغان مہاجرین کو کون لایا ؟ مرحلہ وار واپسی کو یقینی بنایا جائے عزت و احترام کا خیال رکھا جائے ۔ چیئرمین سینٹ نے بتایا کہ چمن پر دھرنے کا معاملہ وہ کمیٹی کے سپرد کر چکے ہیں ۔ اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم نے کہا کہ پاک افغان تعلقات اور افغان مہاجرین طویل عرصے سے پاکستان کے سیاسی افق پر موجود ہیں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ افغانستان ایشیاء کا دل ہے بات یہی ہے دل ٹھیک ہو گا تو معاملات میں بہتری آ سکتی ہے دلوں میں پیار و محبت پیدا کریں سنگ دلی سے گریز کیا جائے ۔ ہر خود مختار ملک کا استحقاق ہے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے جو ممکن ہو اقدامات کرے ۔ دہشت گردی کے تانے بانے سرحد پار سے ملتے ہیں اور جو اسلحہ امریکی فوجی چھوڑ کر گئے اسے ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے گروپوں کے گٹھ جوڑ کی معلومات بھی آ رہی ہیں ضروری ہے کہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کی جائے ۔ سیاسی سفارتی طریقے سے مسئلے کو حل کیا جائے  ۔ خطے میں بھارت نوازی کی لہر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اکٹھنڈ بھارت کے ایجنڈے میں افغانستان بھی شامل ہے مگر ہمیں افغان باشندوں کے حوالے سے قطعاً ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے جس سے ہماری طویل قربانیاں نظر نہ آئیں ہمیں ایسا حسن سلوک کرنا ہے کہ افغانستان جانے والے خود کو  پاکستان کا سفیر سمجھیں ۔ قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار  نے کہا کہ یہ معاملہ طویل عرصے سے درپیش تھا 2014 ء میں اے پی ایس پر دہشت گردوں کے حملے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ۔ نیشنل ایکشن پلان بنا 2013 ء میں پاکستان دیوالیہ کے قریب تھا دہشت گردی عروج پر تھی 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی اور اس وقت کی حکومت 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی یہ تھے وہ حالات جن کا مسلم لیگ ن حکومت نے سامنا کیا افغان پالیسی کے حوالے سے واضح کر دیا کہ اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں کیوں پاکستان سے جا کر کابل میں طالبان سے بات چیت کی گئی ۔ دہشت گردی کے مجرموں کو جیلوں سے رہا کیا گیا اور افغان پالیسی میں 180 ڈگری کا یو ٹرن لے لیا گیا ۔ 20 سالہ تجزیاتی رپورٹ سینٹ میں پیش کریں نگران حکومت سچ سچ ایوان بالا کو آگاہ کر دے اس کے پاس اعداد و شمار موجود ہ یں  ۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہے ںہو سکتا کہ چھ سات ماہ کے لیے معاملات کو التوا میں چھوڑ دیں اسی لیے  بگران حکومت کے اختیار میں اضافہ کیا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ملک ہم پر حملہ کر دے اور ہم کہتے پھرے کہ نگرانوں کو فیصلے کا اختیار نہیں ہے ۔ سابقہ دور میں کس نے اس وقت کی  حکومت نے طالبان سے بات چیت کا اختیار دیا اس بارے میں پارلیمان میں کوئی بیث ہوئی قوم کو اعتماد میں لیا گیا دہشت گردوں کو کیوں چھوڑا گیا ۔ کم از کم انہیں معافی مانگنی چاہیے بلکہ اسے ٹی وی پر لایا جائے اور وہ قوم سے معافی مانگے ۔ غیر قانون تارکین وطن کو نکالنے کی پالیسی درست ہے مگر عزت و احترام سے نکالیں قیدیوں کی طرح نہ نکالیں اگر غیر قانونی تارکین وطن موجود رہتے ہیں تو کوئی اور ملک اور سسٹم نہیں چل سکتا یہ تو جنگل کے قانون کے مترادف ہو گا میں اس معاملے پر مکمل طور پر نگران حکومت کی حمایت کرتا ہوں دہشت گدی کی لہر ہے اور معاملات کو منجمد نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اگ لگی ہو اور لگتی رہے اور ہم انتظار کرتے رہیں ۔ دہشت گردوں کو چھڑانے والوں کا احتساب ضروری ہے ۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے واضح کیا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا ۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کاروائی ضرور ہو رہی ہے اور تحریک میں بھی افغان مہاجرین کی بجائے غیر قانونی تارکین وطن کے الفاظ شامل ہونے چاہئیں سینیٹر مولانا عبدالغفورحیدری سینیٹر سعدیہ عباسی نے واضح کیا کہ ہم نگران حکومت کی پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتے نہ اس کی زمہ داری یا ملیکت قبول کرتے ہیں  ۔ قبل ازیں جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے نگران وزیر اعظم کے ایک ادارے کے سربراہ  کی توسیع کے بیان پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا آئینی اختیار نہیں دیتا اس حوالے سے خواجہ آصف کے 2013 میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں نذیر موجود ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہ ے کہ کوئٹہ سے دن دہاڑے چک پوسٹوں سے لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے اور بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات کا یہ حیران بن بیان سامنے آیا کہ چیک پوسٹ سے اٹھائے گئے بندوں کو پولیس چھڑا کر لائی ۔ انہوں نے کہا کہ مرکز میں وزارت معدنیات کے قیام کا فیصلہ بلوچستان کے حقوق سے انحراف  ہے ۔ 18 ویں تریم کی خلاف ورزی ہے ۔ بلوچستان کے حقوق پر ڈاکہ ہے ۔ ہمیں باقاعدہ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے تعزیت کر لینی چاہیے ہاؤس آف فیڈریشن کو بند کر دیں اور ہم گھروں کو چلے جاتے ہیں اور یہ وزارتیں معدنیات بنا لیں ۔

#/S