- قانون کو منظور کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے وقت موجود ممبران کی عددی تعداد ہونی چاہے، چیف جسٹس کے ریمارکس
- درخواست میں کوئی قابل ذکر نکتہ نہیں،آئین میں عدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں دیا گیا،وکیل وفاقی حکومت کے دلائل
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو(نیب) قوانین میں ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر وفاقی حکومت کے وکیل نے موقف اپنایا ہے کہ آئین میں عدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل سے ہوا اور انہوں نے کہا کہ درخواستوں میں ایسا کوئی قابل ذکر نکتہ نہیں جن کا جواب دیا جا سکے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ قانون اس وقت ہی کالعدم ہوتا ہے جب کوئی اور راستہ نہ بچا ہو، عدلیہ، پارلیمان اور ایگزیکٹو کو اپنی اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں عدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے عدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار دیا۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں بھی قوانین کالعدم قرار دینے کا اختیار مشروط ہے، نیب ترامیم کو اسلامی اصولوں کے خلاف ہونے کی بنیاد پر بھی چیلنج کیا گیا ہے، قانون خلاف شریعت قرار دینے کے لیے واحد فورم وفاقی شرعی عدالت ہے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو قوانین کا شریعت کے پیرائے میں جائزہ لینے کا اختیار نہیں، قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کے پاس مجرمان کی معافی کا اختیار موجود ہے، امریکی صدر کا فیصلہ درست ہو یا غلط عدلیہ کبھی مداخلت نہیں کرتی۔ اپنے دلائل میں وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ1947 سے آج تک کے قانون کے مطابق مقدمہ ثابت کرنے کا بوجھ درخواست گزار پر ہی ہوتا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ عدالت پارلیمان کی نیت پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے وقت موجود اراکین کی عددی تعداد ہونی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیب قانون میں ترامیم منظور کرتے وقت کتنے اراکین حاضر تھے۔مخدوم علی خان نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ اراکین کی درست تعداد بتا دوں گا، آج تک کوئی قانون اس بنیاد پر کالعدم نہیں ہوا کہ اسے اکثریتی اراکین نے منظور نہیں کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ ہوا تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ محض ایک سوال ہے، جذباتی نہ ہوں، مخدوم علی خان نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ آئین کے مطابق فیصلے کرنے کا حلف لیتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے حلف میں یہ بھی ہے کہ وہ تمام فیصلے ملکی سلامتی، ترقی اور بہتری کے لیے کریں گے، کیا ملکی سلامتی، ترقی اور بہتری کے برخلاف قانون سازی اراکین پارلیمنٹ کے حلف کی خلاف ورزی تصور ہو گی۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی عدالت اراکین پارلیمنٹ کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججوں اور اراکین پارلیمنٹ کے حلف میں بس یہی فرق ہے کہ جج قانون کے مطابق فیصلوں کا حلف لیتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جج ملکی سلامتی، ترقی اور خوش حالی کے مطابق فیصلوں کا حلف نہیں لیتے، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ جج آئین و قانون کے مطابق فیصلوں کے پابند ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی منظور شدہ قانون سازی ملکی سلامتی، ترقی اور بہتری کے حق میں ہی تصور ہوتی ہے۔ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ امریکی سپریم کورٹ کے جج نے کہا تھا کہ مقننہ کے پاس احمقانہ قانون سازی کا ہر حق موجود ہے، امریکی عدالت نے قرار دیا کہ اگر عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ساتھ جہنم بھی جائیں تو ان کی مدد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بری یا احمقانہ قانون سازی پر بھی عدالت کا کوئی دائرہ اختیار نہیں بنتا۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے سماعت 11 جنوری تک ملتوی کردی۔