- اسمبلی تحلیل کے 90 روز میں انتخابات ہو جانے چاہئیں،عدالت، پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کیلئے منظور
- لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کو بذریعہ سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا
- قانون کے تحت گورنر 90 دن میں الیکشن کرانے کے لئے تاریخ دینے کے پابند ہیں،بیرسٹرعلی ظفر
- ہم نے پاکستان کی جمہوریت کے لئے لڑنا ہے،جسٹس جواد حسن کے ریمارکس
- جسٹس جواد حسن نے اسد عمر کو روسٹرم پر بلا لیا، اسد عمر نے آئین کا دیباچہ پڑھ کر سنایا
- الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، کیا آپ نے خیبر پختونخوا کے الیکشن کے لئے پٹیشن دائر کی،جسٹس جوادحسن
- کے پی کے الیکشن کے لیے پٹیشن آج ( منگل کو)دائر کریں گے،اسد عمر
- ہم گورنر کی نمائندگی نہیں کرتے، فیڈریشن کو فریق ہی نہیں بنایا گیا، گورنر ایک الگ باڈی ہے،اسسٹنٹ اٹارنی جنرل
- جمعہ والے دن یہ کیس آیا ہے، آپ کی اتنی غیر سنجیدگی ہے کہ کسی نے پڑھا ہی نہیں:جسٹس جوادحسن، سماعت 3 فروری تک ملتوی
لاہور (ویب نیوز)
لاہور ہائی کورٹ نے تحریکِ انصاف کی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر کے گورنر پنجاب کو بذریعہ سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا،عدالت نے کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل کے 90 روز میں انتخابات ہو جانے چاہئیں۔پنجاب میں عام انتخابات کی تاریخ نہ دینے کے خلاف لاہورہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔دورانِ سماعت تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد گورنر کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آپ کی درخواست ہے کہ گورنر کو الیکشن کی تاریخ دینے کے لئے ہدایات جاری کی جائیں، الیکشن 90 دن میں ہی ہونے چاہئیں، سب سے پہلے آپ اس میں الیکشن کمیشن کو فریق بنائیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں ابھی الیکشن کمیشن کو فریق بنا لیتا ہوں۔عدالت نے سوال کیا کہ کیا آپ نے گورنر کو لکھا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دیں؟۔بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ آئین کہتا ہے کہ گورنر کو اپنے آئینی فرائض پورے کرنے ہیں۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ یہ ہم ڈھونڈلیں گے کہ الیکشن کس نے کرانے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جسٹس جواد حسن نے اسد عمر کو روسٹرم پر بلا لیا۔ اسد عمر نے آئین کا دیباچہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سیاسی انصاف کی اصطلاح میرے لیے نئی ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون کے تحت گورنر 90 دن میں الیکشن کرانے کے لئے تاریخ دینے کے پابند ہیں۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ہم نے پاکستان کی جمہوریت کے لئے لڑنا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے گورنر کو لکھا لیکن انہوں نے عمل نہیں کیا، گورنر ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کریں یا اسمبلی خود تحلیل ہو جائے، ہر صورت میں الیکشن 90 دن میں کرانا ہوتے ہیں۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، کیا آپ نے خیبر پختونخوا کے الیکشن کے لئے پٹیشن دائر کی ہے۔اسد عمر نے جواب دیا کہ کے پی کے الیکشن کے لیے پٹیشن آج ( منگل کو)دائر کریں گے۔عدالت نے سوال کیا کہ دوسرے فریق کی جانب سے کون ہے۔اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم گورنر کی نمائندگی نہیں کرتے۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آپ تیاری کے بغیر ہی آ گئے ہیں؟۔اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیڈریشن کو فریق ہی نہیں بنایا گیا، گورنر ایک الگ باڈی ہے۔جسٹس جواد حسن نے کہا کہ جمعہ والے دن یہ کیس آیا ہے، آپ کی اتنی غیر سنجیدگی ہے کہ کسی نے پڑھا ہی نہیں۔اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گورنر کو تو صوبے والے بلاتے ہیں۔عدالتِ عالیہ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے لئے پی ٹی آئی کی درخواست کو سماعت کے لئے منظور کر لیا۔لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کو بذریعہ سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 3فروری تک ملتوی کر دی۔