اداروں کیخلاف اکسانے کا الزام ، لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب 3روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے،پراسیکیوشن کی استدعا
وکیل مدثرخالد عباسی نے اپنے موکل کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کر دی، کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا
مقدمے میں لگائی گئی دفعات بنتی ہی نہیں، امجد شعیب نے ایک مخصوص صورتحال سے متعلق صرف مثال دی،وکیل مدثرخالد عباسی
امجد شعیب نے اگر بیان اور اپنی موجودگی کا اقرار کر لیا تو فوٹو گرامیٹرک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیوں کرانے چاہئیں؟قیصرامام صدر ڈسٹرکٹ بار اسلام آباد
ٹرائل کے لیے وائس میچنگ اور فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کا ثبوت ضروی ہوتا ہے،پراسیکیوٹر
2 اداروں کے افسران کی گرفتاری رہ گئی تھی، ہو سکتا ہے کہ اگلی گرفتاری عدلیہ کے کسی افسر کی ہو،وکیل امجد شعیب
امجد شعیب کے وکیل قاسم ودود کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہو گئے
اسلام آباد ( ویب نیوز)
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے عوام کو اداروں کیخلاف اکسانے اور نفرت پھیلانے کے کیس میں گزشتہ روز گرفتار کیے گئے لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ۔پیر کوامجد شعیب کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر، پراسیکیوٹر اور امجد شعیب کی لیگل ٹیم بھی جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش ہوئی۔پراسیکیوشن کی جانب سے عدالت سے امجد شعیب کے 7 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے بتایا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے۔ عدالت میں پراسیکیوٹر عدنان نے امجد شعیب کے خلاف مقدمے کا متن پڑھا اور عدالت کو بتایا کہ نجی ٹیلی ویژن پر امجد شعیب بطور مہمان موجود تھے، ان کے بیان سے حکومت کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، بیان سے حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی، اپوزیشن کو حکومت کے خلاف مزید سخت حکمتِ عملی کے لیے اکسایا گیا، امجد شعیب کے بیان سے 3 گروہوں کے درمیان نفرت پھیلائی گئی، ان پر لگی دفعات کے تحت 5 اور 7 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔امجد شعیب کے وکیل مدثر خالد عباسی نے اپنے موکل کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کر دی اور انہیں کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا بھی کی گئی۔وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ امجد شعیب نے کوئی جرم کیا بھی ہے یا نہیں، اگر مجسٹریٹ کو لگتا ہے کہ کوئی جرم نہیں کیا تو انہیں کیس سے ڈسچارج کیا جا سکتا ہے، ان پر مقدمے میں لگائی گئی دفعات بنتی ہی نہیں، امجد شعیب نے ایک مخصوص صورت حال سے متعلق صرف مثال دی، انہوں نے ایسی کیا بات کر دی جس پر قانون نے کوئی پابندی لگائی ہو؟ انہوں نے ایسی بات آج تک نہیں کی جس سے ملک کو نقصان پہنچے، امجد شعیب کے خلاف صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے، وہ تقریبا 80 سال کے ہیں، انہوں نے مثبت تنقید کی، انہیں کافی عرصے سے ہراساں کیا جا رہا ہے، ایک گھنٹے کے اندر مقدمہ درج کر کے امجد شعیب کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، جائز تنقید کرنا اگر غلط ہے تو اپوزیشن کو تو سسٹم سے نکال دیں۔ اس کے ساتھ ہی امجد شعیب کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن قیصر امام نے ملزم کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امجد شعیب اپنے بیان کا اقرار کر رہے ہیں کہ وہی ٹیلی ویژن پر بیٹھے ہوئے تھے، اگر بیان اور اپنی موجودگی کا اقرار کر لیا تو فوٹو گرامیٹرک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیوں کرانے چاہئیں؟۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرائل کے لیے وائس میچنگ اور فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کا ثبوت ضروی ہوتا ہے۔ پراسیکیوٹر نے امجد شعیب کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی درخواست کی مخالفت کر دی۔امجد شعیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 اداروں کے افسران کی گرفتاری رہ گئی تھی، ہو سکتا ہے کہ اگلی گرفتاری عدلیہ کے کسی افسر کی ہو۔امجد شعیب کے وکیل ریاست علی آزاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امجد شعیب نے 1965 اور 1971 کی جنگیں لڑیں، یہ پاکستان کے سب سے محب وطن شہری ہیں، انہوں نے شہریوں کو نہیں کہا کہ سرکاری دفاتر نہ جائیں۔اس موقع پر امجد شعیب کے تینوں وکلا نے عدالت سے کیس کو ڈسچارج کرنے کی استدعا کی۔لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے وکیل قاسم ودود کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہو گئے۔بعدازاں عدالت نے امجد شعیب کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے امجد شعیب کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پولیس کے حوالے کر دیا۔