زمین پر قبضے کا الزام،سپریم کورٹ نے جنرل (ر)فیض حمیدودیگر کیخلاف درخواست نمٹادی ،درخواست گزار کو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کا حکم

متعلقہ حکام جب عہدے پر تھے توانہوں نے اپنے عہدے کا غیر قانونی استعمال کیا،کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

  اہلکاروں کے خلاف وزارت دفاع سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے، فوجداری کیس بھی ہوسکتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان

میری یہی درخواست وزارت دفاع کو بھجوادیں،وکیل کی استدعا

یہ عدالت یقینی بنائے گی کہ کہ ہر کسی کو فیئر ٹرائل کا موقع ملے، اس عدالت نے کارروائی سے روکا نہیں،جسٹس اطہر من اللہ

 درخواست گزار قانون کے مطابق مدعا علیہان کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے،آرٹیکل184-3سپریم کورٹ کا ازخود اختیار ہے،میاں ثاقب نثارکی جانب سے جو کچھ کیا گیا وہ آئین، قانون اور سپریم کورٹ کے رولز1980کے خلاف تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

 اسلام آباد(  ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے زمین پر قبضے کے الزام میںسابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمیدسمیت پانچ ریٹائرڈافسران کے خلاف بنیادی انسانی حقوق کے کیس میں دائر درخواست نمٹاتے ہوئے درخواست گزارکو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ درخواست گزار معیز احمد خان، فیض حمید اوردیگر کے خلاف وزارت دفاع کو کارروائی کی درخواست بھی دے سکتے ہیں جبکہ ان افراد کے خلاف فوجداری اور سول عدالتوں میں کاروائی بھی کرسکتے ہیں۔عدالت کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر کیس نمٹاتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے حکم میں لکھوایا ہے کہ درخواست گزار قانون کے مطابق مدعا علیہان کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ درخواست گزار کی درخواست پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔ آرٹیکل184-3سپریم کورٹ کا ازخود اختیار ہے اور جب بھی اس کا استعمال ہو گا تو محتاط انداز میں ہو گا اورایسے انداز میں استعمال نہیں ہو گا کہ جو لوگ ہمارے سامنے نہیں ان کے حقوق متاثر نہ ہوںجبکہ چیف جسٹس نے قراردیا ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے آرٹیکل184-3کے تحت درخواستوں پر چیمبر میں جاری احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔میاں ثاقب نثارکی جانب سے جو کچھ کیا گیا وہ آئین، قانون اور سپریم کورٹ کے رولز1980کے خلاف تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس ا طہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمیداوردیگر حکام کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے دلائل میں کہا کہ کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی کے لیے اسکا اپنا ادارہ بھی موجود ہے، اگر الزامات ثابت ہو جائیں تو ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ نوکری پر بحال کرکے اس کا کورٹ مارشل بھی ہوسکتا ہے جبکہ فوجداری کا روائی بھی ہو سکتی ہے اور سول عدالت میں کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔عدالتی حکمنامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی کے لیے وزارت دفاع، عام فوجداری یا دیوانی عدالت بھی موجود ہے۔سماعت کے آغاز پر، سپریم کورٹ نے درخواست گزار معیز احمد خان کے وکیل حفیظ الرحمان چوہدری کو وکالت نامہ جمع کرانے کے لئے وقت دیا تھا۔دوران سماعت، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے درخواست میں سنگین الزامات عائد کئے ہیں، کیا کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کے ذریعے۔درخواست گزار نے بتایا کہ میرے وکیل نے وکالت نامہ جمع نہیں کرایا، ہمیں کل ہی کال آئی تھی اس لئے کیس میں التوا دیا جائے۔چیف جسٹس آف  پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا یہ کیس پہلے بھی اس عدالت کے سامنے آیا تھا؟وکیل نے بتایا کہ ہماری درخواست تو پہلی بار سماعت کے لئے مقرر ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے کیس کو ملتوی بھی نہیں کر سکتے لہذا آپ وکالت نامہ جمع کرائیں، پھر کیس سنیں گے۔جنرل(ر)فیض حمید کے خلاف درخواست پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل درخواست گزار  حفیظ الرحمان چوہدری نے موقف اپنایا کہ 12مئی2017 کو مدعا علیہ نے درخواست گزار کو 5 فیملی ممبرز کے ساتھ اغوا کر کے پانچ روز حبسِ بے جا میں رکھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کارروائی نہیں کی تھی، وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زاہد ہ جاوید اسلم نامی کسی خاتون کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔وکیل نے بتایا کہ زاہدہ جاوید اسلم کا انتقال ہوچکا ہے، درخواست کی کاپی دیں تو جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لے لیں تاریخ نہیں دے سکتے، چائے کے وقفے کے بعد سماعت کریں گے۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے ہیں وہ آپ کو بتا رہے ہیں، برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے 2017 میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کا کیس دائر کیا اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں نومبر 2018 میں فریقین کو بلا کر کیس چلایا۔چیف جسٹس  آف پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان چیمبر میں اکیلے سنگل جج کے طور پر فریقین کو طلب کر کے کیس چلا سکتا ہے؟ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس اور سی ٹی ڈی وغیرہ کو نوٹس کیا، اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے چیف جسٹس گلزاراحمد کے سامنے بھی رکھی، سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184 تین کی درخواستیں دائر کی گئیں اور جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ بطورجج کیا ایک بندہ چیمبر میں بیٹھ کر کچھ کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نے 184-3کے تحت درخواست دائر کی ہے اور وفاق پاکستان اور کچھ افراد کو فریق بنایا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، ہیومن رائٹس سیل کی کوئی لیگل اتھارٹی نہیں اوراس کے پیچھے کوئی قانون نہیںکھڑا۔کیس کے حقائق میں نہ جائیں اور میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا، جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟کیسے ہیومن رائٹس سیل سے سپریم کورٹ کے نام پر لیٹرز جاری ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے حفیظ الرحمان چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی کتاب اٹھائیں اورآرٹیکل 184-3کو پڑھ لیں، کیا کہیں ہمارادائرہ اختیار ہے یا نہیںہے۔ آپ کے مخالف اورآپ کی اپنی درخواست آرٹیکل 184-3کے تحت آتی ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ ہماری بنتی ہے اورمخالف کی نہیں بنتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا مطلب ہے کہ ججز عدالت میں بیٹھتے ہیں نہ کہ چیمبر میں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تین رائے سپریم کورٹ میں چل رہی ہیں، کوئی ایسی رائے نہیں کہ چیمبر میں بیٹھ کر کوئی جج کارروائی کرے۔ چیمبر اپیلز کے سنگل جج کا کوئی تصور سپریم کورٹ میں نہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان، سابق وزیر قانون سینیٹر فاروق حمید نائیک اور سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو روسٹرم پر بلا کر ان سے آئین کے آرٹیکل 184-3کے حوالے سے پوچھا۔ فاروق نائیک نے کہا کہ کچھ درخواستیں چیمبر میں سنی جاسکتی ہیں۔ سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ آرٹیکل 184-3کے معاملات کو چیمبر میں نہیں سنا جاسکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیوں کسی اٹارنی جنرل نے یہ معاملہ نہیں اٹھایا یا کہ یہ معاملات میں تجاوز ہے، 2010سے ہومن رائٹس سیل کام کررہا تھا بغیر ریکارڈ کے لیٹرز جاری کررہا تھا، اگر یہ عدالت غیر قانونی کام کررہی تھی تو ایگزیکٹو کو اس کی نشاندہی کرنی چاہیے تھی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل کا کوئی کیس براہ راست سپریم میں سماعت کے لئے نہیں لگا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس بلکہ تمام ججز اور چیف جسٹس مل کر سپریم کورٹ بنتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہزاروں فورمز پڑے ہیں درخواست گزار وہاں چلے جائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اپنے حقوق کے لئے درخواست گزار جدھر جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس پوچھا کہ ڈی جی ہیومن رائٹس سیل کون ہیں۔ اس پر عدالت میں موجود ڈی جی ہیومن رائٹس سیل عارف نیازی روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہیومن رائٹس سیل کے قیام کے حوالہ سے کوئی نوٹیفیکیشن، رول اینڈ ریگولیشن یا سپریم کورٹ کا کوئی آرڈر موجود ہے۔ اس پر ڈی جی ہیومن رائٹس سیل کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی ہدایات تھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وہ لیٹر کس قانون کے تحت جاری ہواتھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس چیمبر میں کیسے کیسز سن رہے ہیں۔ اس پر ڈی جی ہیومن رائٹس سیل کا کہنا تھا کہ نہیں سن سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ آپ نے اپنا کوئی ریکارڈ ضائع بھی کیا ہے۔ اس پر ڈی جی ہیومن رائٹس سیل نے بتایا کہ 3لاکھ 58ہزار درخواستوں کو ضائع کرنے کے حوالہ سے احکامات میاں ثاقب نثار نے دیئے تھے۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ چیمبر میں فیصلہ کرسکتے ہیں یا صرف عدلات میں لگانے کا حکم دے سکتے ہیں۔ اس پر ڈی جی ہیومن رائٹس سیل عارف نیازی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس چیمبر میں آرڈر جاری کرے رپورٹس منگواتے تھے،2005کا لیٹر ہے جس کے ذریعے ہیومن رائٹس سیل قائم کیا گیا تھا، 12دسمبر2019کو سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ہونے والے فل کورٹ اجلاس میں یہ معاملہ ایجنڈے پر تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے بعد کوئی فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی۔ ڈی جی ہیومن رائٹس سیل کا کہنا تھا کہ کوئی رولز نہیں بنے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب نکلتا ہے کہ منظوری نہیں ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184-3کے علاوہ کوئی متوازی نظام نہیں چل سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میری رائے کہ آرٹیکل 184-3کے تحت چیف جسٹس چیمبر میں آرڈر جاری نہیں کرسکتا بلکہ عدالت میں کیس مقرر کرنے کا کہہ سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ زاہدہ جاوید اسلم کے خلاف آپ کی کوئی رنجش نہیںہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ میری کوئی رنجش نہیں ہے، معاملہ طے ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس چیمبر میں نہیں گیا بلکہ براہ راست بینچ کے سامنے لگا ہے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے قراردیا کہ دوران سماعت سوال پیدا ہوا کہ کیا چیف جسٹس چیمبر میں پارٹیوں کو بلا کر آرڈر جاری کرسکتے ہیں، سوائے اس کے کہ کھلی عدالت میں معاملہ لگانے کا حکم دیں۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی جانب سے جو کچھ کیا گیا وہ آئین، قانون اور سپریم کورٹ کے رولز1980کے خلاف تھا۔ چیف جسٹس صرف عدالت میں کیس لگانے کا حکم دے سکتا ہے نہ کہ کوئی اورحکم جاری کرے، 1980کے سپریم کورٹ کے رولز کے تحت ہی احکامات جاری کرسکتے ہیں جن میں رجسٹرار کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس اور کوئی جج چیمبر میں کوئی حکم نہیں جاری کرسکتا بلکہ صرف کھلی عدالت میں کیس لگانے کا حکم دے سکتا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے دور میں چیمبر میں ہونے والی والی کارروائی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس کا اپنے حکم میں کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت معیز احمد خان نے وفاق پاکستان کے خلاف درخواست دائر کی ہے اور آئی ایس آئی کے سابق حکام کے خلاف سنگین الزامات لگائے ہیں۔ ہم نے وکیل سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔اس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 2سے 5تک مدعا علیحان کے خلاف درخواست گزار کے پاس کوئی ریمیڈی نہیں، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتا کہ ریٹائرڈ اہلکاروں کے خلاف کوئی کاروائی ہوسکتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ حکام جب عہدے پر تھے توانہوں نے اپنے عہدے کا غیر قانونی استعمال کیا،کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ اس پر چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ درخواست دیں تو وزارت دفاع میں متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ متعلقہ فورم سے رجوع کرنا ہو گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ متعلقہ اہلکاروں کے خلاف وزارت دفاع سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے، فوجداری کیس بھی ہوسکتا ہے اورنقصان کے ازالہ کے لئے سول سوٹ بھی دائر ہوسکتا ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ میری یہی درخواست وزارت دفاع کو بھجوادیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ عدالت یقینی بنائے گی کہ کہ ہر کسی کو فیئر ٹرائل کا موقع ملے، اس عدالت نے کارروائی سے روکا نہیں۔ ZS

#/S