- یہ فیصلہ مہنگائی اور بیرونی اور مالی توازن کے حوالے سے توقعات میں بگاڑ کا مظہر ہے، سٹیٹ بنک
کراچی (ویب نیوز)
اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود 3 فیصد اضافہ کردیا ہے جس کے بعد شرح سود ملک تاریخ کی بلند ترین سطح 20 فیصد پر جاپہنچی ہے جو 1996 کے بعد بلند ترین شرح ہے۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ شرح سود 300 بیسس پوائنٹس بڑھا 20 فیصد کر دی جائے گی۔اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ مہنگائی اور بیرونی اور مالی توازن کے حوالے سے توقعات میں بگاڑ کا مظہر ہے۔مرکزی بینک نے کہا کہ زری پالیسی کمیٹی کا ماننا ہے کہ یہ شرح مہنگائی کے درمیانی مدت کے 5 سے 7 فیصد تخمینے کے اندر رکھنے کی ضامن ہے۔بیان میں کہا گیا کہ زری پالیسی کمیٹی نے نشان دہی کی ہے کہ کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی ضروری ہے لیکن اس کے لیے بیرونی صورت حال کی بہتری کے لیے سنجیدہ کوششیں درکار ہیں۔بیان میں زور دیا گیا ہے کہ کسی قسم کی مالی بگاڑ سے مستحکم قیمتوں کے مقصد کے حصول میں موثر زری پالیسی پر اثر پڑے گا۔اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس 2 مارچ کو ہوگا۔23 جنوری کو بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے بعد شرح سود 17 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 16 فیصد سے بڑھا کہ 17 فیصد کردی ہے، گزشتہ 2 ماہ میں مہنگائی میں کچھ اعتدال آیا ہے مگر اس کے باوجود بھی بنیادی مہنگائی میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ کرنٹ اکانٹ خسارہ ابھی برقرار ہے کیونکہ جس نئی رقوم کی ہم توقع کر رہے تھے اس میں کچھ تاخیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر مسلسل دبا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے عالمی سطح پر معاشی ترقی کی حالیہ پیش گوئی میں تنزلی دکھائی جارہی ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ میں بییقینی کی صورت حال برقرار ہے جس کے اثرات ہماری مارکیٹ پر پڑتے ہیں۔جمیل احمد نے کہا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ بڑھانے کا فیصلہ ملک کی بیرونی اور مالیاتی پوزیشن کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد کیا۔انہوں نے کہا تھا کہ حقیقی شعبے کی ترقی میں اسٹیٹ بینک نے گزشتہ ماہ اپنی مانیٹری پالیسی میں اس کی پیش گوئی 2 فیصد کی تھی مگر اس وقت توقع ہے کہ بیرونی خسارے کی وجہ سے اس میں کچھ رسک ہے اس لیے تھوڑا تنزلی کا دبا آسکتا ہے۔بعد ازاں اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی نے نومبر میں اپنے آخری اجلاس کے بعد سے تین بڑی اقتصادی پیش رفتوں پر غور کیا جس میں گزشتہ 10 ماہ کے دوران بنیادی افراط زر میں اضافے کا رجحان ظاہر ہونے سے افراط زر کی شرح مسلسل بلند رہنا، کرنٹ اکانٹ خسارے میں پالیسی کی وجہ سے سکڑا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے باوجود بیرونی شعبے کے لیے چیلنجز میں اضافہ اور عالمی اقتصادی اور مالیاتی حالات قریب سے مختصر مدت میں بڑے پیمانے پر بییقینی رہنا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر اثرات ہوں گے۔واضح رہے کہ 25 نومبر 2022 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا جس کے بعد شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔یہ اعلان مرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا گیا تھا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ مہنگائی کا دبا توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہے، شرح سود بڑھانے کے فیصلے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی پائیدار نہ ہوجائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے۔