ایک سال تک مہنگائی رہے گی لیکن کوشش کریں گے کہ اشیا خورونوش کی قیمتیں مزید نہ بڑ ھیں، اسے مانیٹری پالیسی سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا

عالمی مسئلہ کیساتھ ساتھ ہمارے اندرونی سطح پر بھی چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے، ڈاکٹر مرتضیٰ سید کااعتراف

ویسے تو 6 فیصد شرح نمو کا بڑھنا  اچھی چیز ہے لیکن دو سال تک رہے تو ہماری معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ مسئلے شروع ہوجاتے ہیں ،پریس کانفرنس

کراچی (ویب نیوز)

اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید 125 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 15 فیصد کردی۔قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک  ڈاکٹر مرتضیٰ سیدنے کہا کہ مہنگائی کم کرنے پر زور دے رہے ہیں ،ایک سال تک مہنگائی رہے گی لیکن کوشش کریں گے کہ اشیا خورد نوش کی قیمتیں مزید نہ بڑہیں،عالمی مسئلہ کیساتھ ساتھ ہمارے اندرونی سطح پر بھی چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے، ویسے تو 6 فیصد شرح نمو بڑی اچھی چیز ہے لیکن دو سال تک شرح نمو 6 فیصد رہے تو ہماری معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ مسئلے شروع ہوجاتے ہیں، مہنگائی شروع ہوتی اور کرنٹ اکاونٹ پر دباو آجاتا ہے،کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کو مانیٹری پالیسی سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔  ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے، کھانے پینے کی اشیا بھی مہنگی ہوگئی ہیں، پھر حکومت نے ابھی مشکل فیصلہ کیا ہے جو صحیح فیصلہ تھا کہ بجلی اور پیٹرول کی سبسڈی ختم کردی جائے۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے عام آدمی پر بہت دباو آرہا ہے، اسٹیٹ بینک اور زری پالیسی کمیٹی اس چیز پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے عام آدمی کے لیے بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کنٹرول کرنا اب ہمارا سب سے اہم مقصد ہے تاکہ ہمارے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔ قائم مقام گورنر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شرح سود کو 1.25 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے، 1970 کے بعد مارکیٹ میں اتنی زیادہ مہنگائی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ کے بعد جب معشتیں بحال ہونے لگیں تو طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا اور شپنگ اور دیگر مد میں لاگت میں اضافہ ہونے لگا۔ ڈاکٹر مرتضی سید نے بتایا کہ خیال تھا کہ قیمتیں بتدریج نیچے آنا شروع ہوں گی لیکن فروی میں روس یوکرین جنگ کے بعد اشیا کی چیزیں اور بھی اوپر چلی گئیں اور عالمی مسئلہ بھی ہے، جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے اندرونی سطح پر بھی چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے، سب سے پہلی یہ ہے کہ مالی سال 2021 اور 2022 میں ہم نے بہت تیزی سے شرح نمو دیکھا جو تقریبا 6 فیصد تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو 6 فیصد شرح نمو بڑی اچھی چیز ہے لیکن دو سال تک شرح نمو 6 فیصد رہے تو ہماری معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ مسئلے شروع ہوجاتے ہیں، مہنگائی شروع ہوتی اور کرنٹ اکاونٹ پر دباو آجاتا ہے۔ ڈاکٹر مرتضی سید نے کہا کہ شرح نمو میں ہماری تیز رفتاری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بدقسمتی سے مالی وسعت ہوگی اور اس وجہ سے بھی طلب بڑھ گئی اور اس سال پھر سے شرح نمو 6 فیصد ہوگئی حالانکہ رواں سال تھوڑی سی کم ہونی چاہیے تھی تو اس وجہ سے بھی مہنگائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے وہ بڑا مشکل اور غیریقینی ہے، دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے سربراہان پریشان ہیں کیونکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی ہے اور اس قسم کی مہنگائی ہم نے کوئی 50 سے 60 برسوں بعد دیکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی دنیا میں سب کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے اور پاکستان کے لیے بھی چیلنج ہے لیکن جس طرح ہم نے کووڈ کا مقابلہ کیا تھا اسی طرح اس مرحلے سے بھی نکل آئیں گے، مشکل مرحلہ ضرور ہے کیونکہ ایک سال تک مہنگائی بلند رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اشیا کی قیمتیں اوپر گئی ہیں تو ایک سال تک مہنگائی رہے گی لیکن ہم کوشش کریں گے کہ مزید نہیں بڑھے تاکہ آم آدمی پر مزید با نہ پڑے۔