جیل جانے کو تیار ہوں، سمجھ نہیں آ رہا کہ آرمی چیف کیوں ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں: عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ جیل جانے کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت کے موجودہ اقدامات اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔
منگل کو پولیس کی جانب سے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کے بعد بی بی سی اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انھوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی گرفتاری کی کوشش کی شکل میں وہ وعدے پورے کیے جا رہے ہیں جو موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے کیے گئے۔
تاہم ان الزامات کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متعلقہ حکام نے کہا ہے کہ یہ تمام الزامات ’بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی‘ ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر موجودہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی اور انھیں افسوس ہے کہ آج فوج اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو آمنے سامنے لایا جا رہا ہے
’آج اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پناہی ختم کر دے تو یہ ایک دن بھی نہیں رہیں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ نواز شریف سے آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت جو وعدے کیے گئے وہ پورے کیے جا رہے ہیں۔ کونسا ملک ہے جو عوام اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرتا ہے؟‘
خیال رہے کہ اس سے پہلے عمران خان نے موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ پر لگائے گئے ان الزامات کے بارے میں جب متعلقہ حکام سے سوال کیا گیا تو انھوں نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے تمام الزامات بے بنیاد اور فضول ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس طرح کا جھوٹ اور الزامات کا مقصد سیاسی مفادات حاصل کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو سیاسی رہنما سب کے لیے قانون کی حکمرانی کا پرچار کر رہا ہے وہ خود قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اور عدالت میں پیشی سے بچنے کے لیے تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔‘
جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آخر موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ان کے خلاف ایسے اقدامات کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ عمران خان نے کہا کہ ’مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ میں تو خود حیران ہوں کہ عجیب ماحول بن گیا ہے۔ مجھے آرمی چیف کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیوں ان (پی ڈی ایم) کی پشت پناہی کر رہے ہیں؟ کیا انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ادارے کو نقصان پہنچ رہا ہے؟
’اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ایسا کیوں ہے تو شاید نواز شریف سے کوئی وعدہ کیا ہو ، وہ وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا؟‘
عمران خان نے کہا کہ وہ جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے اس بیانیے کو مسترد کیا کہ وہ جیل جانے سے ڈر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا انھیں یا ان کی سیاست کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
خیال رہے کہ مریم نواز شریف بارہا یہ کہہ چکی ہیں کہ عمران خان جیل جانے سے کترا رہے ہیں۔ عمران خان نے ان بیانات کے جواب میں کہا کہ نواز شریف خود دو بار ملک سے ’ڈر کے فرار‘ ہوئے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ گرفتار کیے جانے کی صورت میں انھوں نے پارٹی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر فیصلے کرے گی اور پارٹی چلائے گی۔
عمران خان نے انٹرویو کے دوران دوران حراستی تشدد پر بھی بات کی اور کہا کہ ان کے حمایتی اس لیے ان کے گھر کے باہر موجود ہیں کہ ماضی میں ان کے پارٹی رہنماؤں کو رات کے اندھیرے میں اٹھایا گیا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس سوال پر کہ کیا انھیں ڈر ہے کہ انھیں گرفتاری کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، عمران خان نے کہا ’مجھے نہیں پتا جیل میں کیا ہوگا، مگر میں تیار ہوں۔ انسان کو ہر چیز کے لیے تیار ہونا چاہیے۔‘
عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی کوششوں کے بارے میں بھی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ابھی ان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں ہیں۔
’(اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی) کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔ ایک سیاسی جماعت ہمیشہ اپنے راستے کھولتی ہے۔ اور ہم چاہتے کیا تھے؟ ہم نے جنرل باجوہ سے مل کر یہی کہا تھا کہ الیکشن کروا لیں ، ملک کو بچا لیں۔ معیشت جو بچا لیں، ہم نے کہا تھا کہ بحران سے نکلنے کا راستہ ایک ہی ہے، جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا، تب تک معیشت بہتر نہیں ہو گی۔ تو میں نے جنرل باجوہ کو بھی یہی کہا تھا اور موجودہ آرمی چیف کو بھی یہی پیغام بھجوا رہے ہیں۔ لیکن کیا ان کو سمجھ نہیں آ رہی؟ کیا انھیں وہ سب نظر نہیں آ رہا جو سب کے سامنے ہے؟‘
گذشتہ انتخابات کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف جیل میں تھے اور ان کے صاحبزادی مریم نواز بھی کچھ عرصہ جیل میں قید رہیں۔ سیاسی ناقدین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی ناکامی کی ایک وجہ خود نواز شریف کا میدان میں نہ ہونا تھا۔
لیکن کیا اس بار عمران خان کے گرفتار ہونے یا جیل جانے کی صورت میں ان کی جماعت کو بھی شکست کا سامنا کرنے پڑے گا یا نہیں، اس بارے میں عمران خان خاصے پراعتماد نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا جرم کوئی نہیں ہے اور یہ کہ نواز شریف پانامہ کیس میں جیل گئے تھے:
’جیل میں اگر آپ اس لیے جائیں کہ آپ نے ملک کا پیسہ منی لانڈرنگ کر کے ملک سے باہر بھیجا اور بڑے مہنگے فلیٹس میں رہیں اور ایک رسید نہ دکھا سکیں۔ تو قوم کو سب نظر آ رہا ہے اور وہ ایسے شخص کی حمایت نہیں کرتی۔ مگر جیل میں عمران خان کو اس لیے ڈالنا کہ اسی مقدمات میں سے کوئی ایک (ثابت) ہوجائے، تو کوئی ایک کیس بھی ایسا نہیں ہے۔ یہ بات عوام نہیں مانتی۔ یہ قوم مجھے 50 سال سے جانتی ہے تو کیا وہ لوگ مان جائیں گے کہ عمران خان نے قتل یا کرپشن یا غداری یا دہشتگردی کر دی؟ تو مجھے جیل میں ڈالنے سے انہیں نقصان ہے، مجھے کوئی نقصان نہیں۔‘
اس سوال پر کہ وہ بار بار سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی بات کرتے ہیں تو وہ حکومت میں آنے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ مداخلت روکنے کے لیے کیا کریں گے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملک اب ایک دلدل میں پھنس گیا ہے اور یہ کہ ملک میں جب تک طبقاتی قانون موجود ہو گا اور مساوی قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی تب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔