قومی اسمبلی اجلاس: عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور
حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی اس ایوان کا حق ہے، قانون سازی سے کوئی عدالت یا ادارہ روک نہیں سکتا ،مولانا عبدالاکبر چترالی کا بل کی جلدی منظوری پر اعتراض
ہم چیف جسٹس کو مقید کریں گے لیکن کل جسٹس قاضی فائز عیسی آرہے ہیں، اس کا کیا کریں گے، اس کے ہاتھ پاوں بھی باندھیں گے، ایوا ن میں اظہار خیال
پاکستان اس وقت بہت مسائل کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان میں ہم نے کئی بحران دیکھے اور اس سے نکل آئے، بلاول
اسلا م آباد( ویب نیوز)
قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کا مقصد سوموٹو نوٹس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو انفرادی حیثیت میں حاصل اختیارات کو کم کرنا ہے۔بل کو وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا جسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔اس سے قبل اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی۔ قائمہ کمیٹی رپورٹ چیئرمین محمود بشیر ورک نے ایوان میں پیش کی۔عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی شق وار منظوری لی گئی، بل 2023 پر رائے شماری کی تحریک منظور کی گئی۔محسن داوڑ نے بل میں ترمیم پیش کر دی اور وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم کی حمایت کر دی۔ محسن داوڑ نے کہا کہ کراچی کا نسلہ ٹاور بھی ازخود نوٹس کی وجہ سے گرایا گیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ماضی میں184/3 کے متاثرین کو 30دن میں اپیل کا حق دیا جائے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ایک بار کی قانون سازی ہے کوئی پنڈورا باکس نہیں کھلے گا۔پیپلزپارٹی نے محسن داوڑ کی ترمیم کی حمایت کر دی جس کے بعد ماضی میں 184/3 کے متاثرین کو اپیل کا حق دینے کی ترمیم منظور کر لی گئی،وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ منگل کو اس ایوان میں ایک بل پیش کیا گیا اور ایوان کا خیال تھا کہ یہ بل عوام دوست ہے، جس سے پاکستان کے لاکھوں، کروڑوں عوام کو سپریم کورٹ میں قانونی کارروائی کے حوالے سے کچھ حقوق حاصل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ اس قانون کی بنیاد کا مطالبہ بارکونسلز کا مطالبہ بھی ہے اور اسی لیے بارز کے عہدیداران اور ارکان بلاامتیاز اس بل کی حمایت کی، بل کمیٹی کو سونپ دیا گیا تھا۔وزیرقانون نے کہا کہ کمیٹی نے اس بل پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے بعد بل کو واضح کردیا اور کچھ ترامیم تجویز کی گئیں اور اس دوران قائمہ کمیٹی قانون اور انصاف نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جبکہ اعظم نذیر تارڑ نے بل کے حوالے سے قرارداد کی منظوری دی۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے۔جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی اس ایوان کا حق ہے، قانون سازی سے کوئی عدالت یا ادارہ روک نہیں سکتا لیکن یہ بل کل رات کو پیش کیا گیا پھر کمیٹی میں گیا اور صبح ساڑھے 9 بجے کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے اس کی منظوری دی گئی۔انہوں نے کہا کہ اس بل کو ڈیڑھ بجے قومی اسمبلی سے منظور کروایا جارہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جلدی کی ضرورت کیا تھی کیا ؟اس پر مزید لوگوں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جاتی، اٹارنی جنرل، سابق چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی تو بہتر نتیجہ نکل آتا۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی شدید مسائل اس وقت موجود ہیں، لوگ مفت آٹا حاصل کرنے کے لیے شہید ہو رہے ہیں، ملک میں صورت حال یہ ہے کہ اس وقت رمضان المبارک میں افطاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں مل رہا ہے۔عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سیلاب زدہ لوگوں کو اب تک مناسب ریلیف نہیں ملا، کم از کم خیبرپختونخوا میں میرے علاقے میں لوگوں کو ریلیف صحیح طرح نہیں ملا لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو پاکستان کے اہم مسائل پر بھی گفتگو کرنے کے لیے ہمیں ہدایات دینی چاہیے تھی لیکن ایک مسئلے پر اور جن لوگوں سے آپ نے مشاورت کی ہے، ان کے لیے دوسرا بل لے کر آئے ہیں اور لوگ کہتے ہیں رشوت کے طور پر ان کو دیا گیا ہے، یہ دوسرا بل وکلا کو رشوت کے طور پر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں یہ باتیں سنی ہیں، ہمیں اپنے اداروں کو مستحکم کرنا چاہیے، اداروں کا استحکام ہم سب کے لیے بہتر ہے، سپریم کورٹ یا عدلیہ اپنا قانون تقاضے کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتا، یہ حقیقت ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔عدلیہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مراعات اور تنخواہوں کے لحاظ سے دنیا میں ہمارا نمبر پانچواں ہے اور کارکردگی کے لحاظ سے 128 نمبر پر ہے، اس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم چیف جسٹس کو مقید کریں گے لیکن کل جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب آرہے ہیں، اس کا کیا کریں گے، اس کے ہاتھ پاوں بھی باندھیں گے۔وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بل فرد واحد کے اختیارات کو سینیئر ججوں میں تقسیم کرنے پر ہے، عدالتوں کے اندر ججوں کی جو اختلافی آواز آرہی ہے وہ سب کے سامنے ہے اور یہ پارلیمان کا حق ہے جو وہ استعمال کر رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا کیس تاخیر کا شکار کرکے ان کا عدالتی قتل کیا گیا، ضیاالحق نے عدلیہ کے سارے اختیارات ایک فرد واحد کو دیے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان کبھی نہیں چاہتی کہ ملک میں ایسی کیفیت ہو جس میں ادارے سامنے ہوں، پارلیمان اپنے دائرہ اختیار میں اپنا حق استعمال کر رہا ہے۔ سارا کھلواڑ ایک فرد واحد نے کیا جو اس وقت بھی لاڈلہ بنا ہوا ہے، عمران ملک میں لاشیں گرانا چاہتا ہے ہم ایسا نہیں چاہتے۔ نیب لاز میں جو ترامیم ہوئی ہیں اس سے کون مستفید ہو رہا ہے؟ سپریم کورٹ کی ساکھ کو یہ بل بہتر بنائے گا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا کیا اس قانون پر نظر ثانی نہیں ہوسکتی، توہین عدالت کے قانون میں نظر ثانی ہونی چاہیے۔ بینچ کی طرف سے نواز شریف کے لیے سسلین مافیا کہا گیا، عدلیہ بحالی تحریک پر حکومت اور اپوزیشن میں لاہور میں میرے گھر مشاورت ہوئی، آج سے 15 سال پہلے ایسی قانون سازی کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ بینچ میں باہر سے کوئی اور شامل نہیں ہوگا عدلیہ سے ہی جج ہوں گے، پارلیمان اپنا آئینی حق استعمال کر رہا ہے۔ ہم تجاوز نہیں کر رہے آئین اجازت دیتا ہے، اس ایوان کے پاس مینڈیٹ ہے۔ بھٹو نے 50 سال پہلے کہا طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور آج بھی کہتا ہوں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے قانون سازی کے تمام لوازمات پورے کیے، ہمیں اپنی آئینی اور قانونی پاور کو ڈسپلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں، یہ قانون بہت دیر پہلے منظور ہونا چاہیے۔ ماضی میں منتخب وزراعظم کے ساتھ جو ہوا اس پر قانون سازی ہونی چاہیے۔پبلک اکانٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ چند روز پہلے مشترکہ اجلاس میں ہم نے پھر وہ ماحول دیکھا جو سال سے نہیں دیکھا تھا، پھر اس ایوان میں گالم گلوچ ہوئی، بدتمیزی کا وہ ماحول بنا جو چار سال چلتا رہا اس لیے یہ ترمیم بہت مناسب ہے لیکن تین کے بجائے سات جج ہونے چاہئیں کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے میں تین ججز کے فیصلوں سے ہی مشکلات ہوئیں۔نور عالم خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے پیسے جو لوٹتے ہیں انہیں حکم امتناع مل جاتا ہے، بطور چیئرمین پی اے سی جن کے خلاف بھی کارروائی کی کوشش کی انہیں سٹے آرڈر مل گیا۔ یہاں دو مختلف پاکستان نظر آتے ہیں، غریب کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ۔انہوں نے کہا کہ عمران کو اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اب مداخلت ختم ہوگئی ہے، پہلے ہمیں یہاں اجلاس میں بلانے کے لیے فون آتے تھے لیکن اب اگر کسی کرنل، بریگیڈیئر یا جنرل کا فون نہیں آتا تو آپ کو مسئلہ ہے؟وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا کہ قانون سازی ہمارا حق ہے کسی جنرل یا جج کا نہیں، جو اپنی حدود پار کرتے انکو روکنے کے لیے قانون سازی کا حق رکھتے ہیں، رات کی تاریکیوں میں عروج بھی ہوتا ہے، نبی کریم کو رات کی تاریکی میں میراج ہوئی، شب قدر کی بابرکت رات بھی رمضان المبارک میں ہے اور ہمارا سیاسی عروج کا زمانہ رمضان المبارک میں ہے۔ پاکستان کے عوام نے یہ امانت ہمیں سونپی ہے،پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن اسمبلی احمد حسین دیہڑ نے بل پر ایوان، وزیراعظم، اسپیکر اور وزیرقانون کو مبارک باد دی اور کہا اس سے عوام کو حق ملے گا اور یہ وکلا کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اس سے انصاف ملے گا۔انہوں نے کہا کہ اختیارات عدلیہ کو دیے گئے ہیں، عدلیہ سے لے کر کسی اور کو نہیں دیے گئے، اس میں بینچ اور وکلا کی عزت ہے، سینئر تین جج بیٹھ کر از خود نوٹس اور بینچ کی تشکیل پر فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں انصاف کے قریب نتائج ملیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جو کہتے ہیں قانون غلط نہیں ہونا چاہیے، قانون پر عمل ہونا چاہیے، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس قانون کوبنانے والا ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے سزائے موت دی، آج یہ جواب دیں، یہ قانون کی تشریح کیسے کریں گے، تین دفعہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف کو سزا دے کر ملک سے باہر بھیجا تو یہ کیا انصاف دیں گے۔رکن اسمبلی صالح محمد نے کہا کہ بل پر پہلے بحث ہوتی تاکہ ترامیم کا موقع مل جاتا، حیران ہوں کہ تراویح کے دوران یہاں اجلاس چل رہا تھا پتا نہیں سحری کے وقت کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا اور وزیرقانون ایک دم بل پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم بھی اصلاحات کے حق میں ہیں، ہم کہتے ہیں عدلیہ میں اصلاحات ہوں لیکن عدلیہ پر ڈاکا ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں، بل کے مناسب وقت دینا چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ آج جو قانون سازی ہو رہی ہے یہ عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے، یہ اصلاحات ذاتی بنیاد پر ہیں۔قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے کہا کہ میں ایوان اور وزیرقانون کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بل قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور اس سے ون مین شو ختم ہوگا اور تین سینئر جج بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ طور پر یہ بل لایا، جو پورے ملک کے وکلا کی ترجمانی کر رہا ہے، جو صحیح بات ہے وہ ایک گھنٹے اور ایک منٹ میں منظور کرلی جائے تو بہتر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے اور اس سے عدلیہ بھی مضبوط ہوگی اور غریب کو انصاف ملے گا اور عدلیہ کے ون مین شو پر نظر ثانی ہوگی۔وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت بہت مسائل کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان میں ہم نے کئی بحران دیکھے اور اس سے نکل آئے، جمہوری اور آئینی بحران دیکھا، آمریت دیکھی مگر ان آمروں کا مقابلہ کرکے جمہوریت قائم کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام ایک ساتھ تاریخی معاشی بحران، مہنگائی، تاریخی بے روزگاری اور غربت کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے اور کچھ اس لیے ایک ایسا نااہل اور نالائق وزیراعظم کو ہم پر مسلط کیا گیا تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے معیشت کا گلہ گھونٹا اور پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیل دیا۔ان کا کہنا تھا کہ آج بھی پنجاب میں راجن پور، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کے عوام اس تاریخی قدرتی آفت کی وجہ سے پیدا مسائل کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہماری معیشت کے مسائل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا کردیا گیا ہے، دہشت گردوں نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، اسی نالائق وزیراعظم نے پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیا تو اسی وقت غیرجمہوری قوتوں نے ایک ہائبرڈ جنگ شروع کیا تھا، ہائبرڈ جنگ جمہوریت، سیاسی اتفاق رائے، میثاق جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے خلاف خلاف تھی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ہر طرف سے ہو رہا تھا، میڈیا کے ذریعے تھا، ہر سیاسی رہنما کی کردار کشی کی گئی، ہمارے سامنے جو بحران پیدا ہوا ہے، اس کا ماضی ہے، 1996 میں جس طریقے سے جنرل (ر) حمید گل اس سلیکٹڈ کو انگلی پکڑ کر سیاست میں لے کر آئے وہ کیوں لے کر آئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جو کردار جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل فیض حمید کا تھا وہ آپ کے سامنے ہیں، عوام کے سامنے ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وہ بھی سیاسی اتفاق رائے کے خلاف، 18 ویں ترمیم کے خلاف، جمہوریت کے خلاف ایک گٹھ جوڑ تھا، جو اس ہائبرڈ جنگ میں شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ اتحادی بھول جاتے ہیں کہ ایک اور چیف جسٹس بھی اس میں شامل تھا، جسٹس افتخار چوہدری نے اس روایت کی بنیاد ڈالی، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی آمریت افتخار چوہدری نے قائم کی اور وہ بھی اس ہائبرڈ جنگ میں شامل تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاشا آیا، ظہیر آیا سب چلے گئے لیکن عمران خان نیازی بدستور موجود ہے، اس کرکٹر کو ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لے کر آئی اور پاکستان کے ادارے اس جرم میں شامل تھے کہ وہ ایک فریکنسٹائن بنا رہے تھے، یہ ہر وقت ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اداروں میں کچھ آئن سٹائن بیٹھتے ہیں اور اس ملک کے فیصلے کرتے ہیں، اسٹریٹجک اثاثے بناتے ہیں اور پھر آخر میں یہ ہمارے گلے پڑ جاتے ہیں۔بعدازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا اور ایوان نے بھاری اکثریت سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کر لیا جبکہ سپریم کورٹ(کارروائی، قواعد و ضوابط)بل بھی منظور کر لیا گیا۔اعظم نذیر تارڑ نے وکلا کی بہبود اور سیکیورٹی کے حوالے سے لائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔وزیر تجارت نوید قمر نے امپورٹس اینڈ ایکسپورٹس کنٹرول ایکٹ 1950 میں ترمیم کا بل پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔