• ایوان بالا میں عدالتی اصلاحات کا بل کثرت رائے سے منظور
  • بل کے حق میں 60مخالفت میں 19پی ٹی آئی ارکان کی تعداد28ہے
  •  سر زمین غیر آئین کی دہائیاں ، منظوری کے موقع پر اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی،
  • عدالت پر حملہ نامنظور کے بینرز لہرادیئے گئے  ،حکومت انصاف کا  ترازوگھر لیکر جانا چا ہتی ہے کا سنگین الزام بھی عائدکردیا گیا
  •  اراکین دست گریبان ہوگئے،  پارلیمان کو اشرافیہ کے تحفظ کے لئے استعمال کرنے  کے الزام  کا بھی شور،
  • بل قائمہ کمیٹی کو ارسال کرنے سے صرف نظر کیا گیا ہے ،چیئرمین سینٹ کا گھیراؤ کر لیا گیا،
  • بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دی گئی،مدد کے لیے چیئرمین سینیٹ نے  سارجنٹس کو طلب کر لیا
  • سارجنٹس دونوں اطراف  حفاظتی دیوار بنا کر کھڑے ہوگئے
  • عدلیہ ثالث نہیں ہے یہ اختیار پارلیمان کا ہے سینیٹر رضا ربانی نے واضح کردیا

اسلام آباد (ویب نیوز)

ایوان بالا میں عدالتی اصلاحات کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا سر زمین غیر آئین کی دہائیاں ، منظوری کے موقع پر اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی،عدالت پر حملہ نامنظور کے پلے کارڈز اٹھا اور بینرز لہرادیئے  گئے ،حکومت  انصاف کا  ترازوگھر لیکر جانا چا ہتی ہے کا سنگین الزام بھی عائدکردیا گیا  اراکین دست گریبان ہوگئے،  پارلیمان کو اشرافیہ کے تحفظ کے لئے استعمال کرنے کا الزام  کا بھی شور،بل قائمہ کمیٹی کو ارسال کرنے سے صرف نظر کیا گیا ہے ،چیئرمین سینٹ کا گھیراؤ کر لیا گیا،بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دی گئیں،مدد کے لیے چیئرمین سینیٹ نے  سارجنٹس کو طلب کر لیا،سارجنٹس دونوں اطراف  حفاظتی دیوار بنا کر کھڑے ہوگئے۔جمعرات کواجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا۔وفاقی  وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی سے منظور  سپریم کورٹ (پریکٹس اور طریقہ کار )بل 2023  سے متعلق  تحریک پیش کی۔ تحریک انصاف کے ارکان مخالفت کرتے ہوئے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے ۔تحریک انصاف کے سینیٹرز نے عدلیہ کے حق میں  ہاتھوں میں پلے کارڈز بینرز آٹھا رکھے تھے ۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جہاں آئین کی تشریح کا موقع ہو پانچ ججز فیصلہ کریں گے۔  وزیر قانون نے کہا کہ قانون سازی کا کام مقننہ کا ہے آئین ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت سے روکتا ہے۔ ہم پندرہ سال سے دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ایسے ایسے معاملات پر سوموٹو نوٹس لیے ہیں ،کراچی میں یہ ٹاور گرا دو،  اسلام آباد کے یہ دو ٹاور قیمتی ہیں انہیں نہ گرا  یہ رویہ  بھی ہم نے دیکھا۔ اسپتال میں ادویات سے اسپتال کی بیڈ شیٹ تبدیلی تک پر سو موٹو نوٹسز لیے گئے۔ یہ بات ایوانوں سے نکل کر عدل کے ایوانوں میں بھی گئی ۔اربوں ڈالرز نے نقصانات ریاست کو اٹھانے پڑے۔ آج جو ماحول بنا تو مختلف اطراف سے آوازیں اٹھی۔ عدل کے ایوانوں سے بھی آوازیں اٹھی کہ اس معاملے پر قانون سازی کیوں نہیں کی جا رہی۔ بل میں ترامیم کر کے پارلمنٹ میں پیش کیا گیا ۔سپریم کورٹ سے آواز آئی کہ یہ ایک فرد واحد کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ اجتماعی سوچ ہی اداروں کو آگے لیکر جاتی ہے اداروں کو مضبوط کیا جائے نہ کہ شخصیات کو۔ ایک عدالتی  کمیٹی کی  تشکیل ہوگی جو کیسز کی نوعیت پر غور کرے گی ۔ انھوں نے کہا کہ آخری فل کورٹ میٹنگ 2019میں ہوئی ۔وہاں پر بھی مشاورت کا فقدان ہے۔ تین ججز پر مشتمل کمیٹی سوموٹو نوٹس کا جائزہ لے اور پھر فیصلہ کرے فیصلے کے بعد پانج معزز ججز کا بینچ بنایا جائے گا۔ آرٹیکل 10کے تحت اپیل کا حق دیا جائے گا ۔سپریم کورٹ واحد ایسسی کورٹ ہے کہ جس کا فیصلہ نہ سیشن کورٹ میں جا سکتا ہے۔ نہ ہائیکورٹ میں جا سکتا ہے یہ بار کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ اڑھائی لاکھ وکیلوں کا بھی مطالبہ تھا ان ترامیم کو دونوں جانب سے پزیرائی ملی اپیل کا حق دیا جائے گا اپیل تیس دن میں دائر کی جا سکتی ہے۔ آرٹیکل 10صاف شفاف انصاف فراہم کرنے کا کہتا ہے انصاف کی فراہمی میں ایک خلا موجود تھی۔ہنگامی نوعیت کے کیسز کئی کئی ماہ تاخیر کا شکار ہوتے تھے اب چودہ دن میں یہ کیسز فکس کرنے کی ترمیم کی ہے اس مقاصد کے ساتھ یہ بل پیش کیا گیا ہے اسے پاس کیے جائیں کیا اسے کمیٹی میں نہیں بھیجنا  ایوان میں حکومتی ہدایات کو سنا جاتا رہا اور عملدرآمد ہوتا رہا ۔ اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم نے کہا کہ  یہ اصلاحات کا بل نہیں مفادات کر بل ہے اس بل کے اصل اغراض ومقاصد چھپائے جا رہے ہیں اس ملک میں اقتدار میں بھی اشرافیہ قابض ہے ۔ اشرافیہ چاہے تو ان کے لیے پانی میں بھی راستہ بن جاتا ہے اور پھر اسی پانی میں غریب طبقہ ڈوب جاتا ہے یہ نئی بات نہیں جو یہ پارلیمنٹ کے ساتھ کر رہے ہیں ۔اس  ایوان کو ای وی ایم کا معاملے میں بھی اس حکومت نے ایسے ہی استعمال کیااصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں اس کے لیے یہ لوگ عدلیہ پر بھی وار کر رہے ہیں تراویح کے دوران بھی ایوان اور کابینہ کا اجلاس چلتا رہا ۔ انھوں نے پاکستان کیا آئین کے تحت چلے گا یا سر زمین غیر آئین چلے گا۔انھوں نے کہا کہ  پاکستان کی تاریخ میں  نوے دن 5 سال تک بھی چلے جاتے ہیںیہ چاہتے ہیں کہ انصاف کا ترازو اپنے گھر  کے لئے کئے جائیں۔ ایک منظم منصوبے کے تحت عدلیہ کے خلاف باقاعدہ مہم  چلائی جا رہی ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ قوم کو بیوقوف بنانا بند کریں یہ عوام کے لیے نہیں ذاتی مفادات کا بل ہے اس بل کے اصل مقاصد چھپا نہیں سکتے اشرافیہ کے لیے آئین میں بھی ترمیم کر دیتے ہیں ۔قانون بدل دیتے ہیں یہ سو فیصد ذاتی مفاد کا قانون کا رہے ہیں اس سے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں نیب لاز بھی اسی طرح آئے تھے بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو بھی اسی طرح روندھ دیا تھا گزشتہ چند دنوں سے جو ماحول بنایا ہوا ہے مسئلہ یہ ہے کہ آئین نے پابند کیا ہے نوے دن میں الیکشن کرائیں آپ عوام میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں۔ ؟ہوش کے ناخن لیں اور آئین کے ساتھ کھلواڑ مت کریں اس قانون کے تحت یہ ترازو کے پلڑے برابر نہیں کر رہے بلکہ ترازو کو گھر لیکر جانا چا ہتے ہیں ۔شہزاد وسیم نے کہا کہ  انہوں نے پہلے کرپشن کے کیسز معاف کروائے اب یہ عدلیہ کو تابع کرنا چاہتے ہیں۔ عدلیہ کو تابع لاکر نا اہلی ختم کروانا چاہتے ہیں  یہ ملک کو اسی طرح چلانا چاہتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر میان  رضا ربانی نے کہا کہ  وکلا بار کائونسلز کا یہ ایک پرانا مطالبہ رہا ہے ۔بار بار یہ مطالبہ کیا گیا کہ سوموٹو پر نظر ثانی کی جائے تشویش کی بات یہ ہے کہ ادارے آپس میں دست و گریباں ہونے لگیں تو ریاست کے لئے یہ خطرناک ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ میں جو صورتحال بنی ہے وہ ملک کے لئے بہتر نہیں۔سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ اس بات کو ماننے سے قاصر ہوں اس بل کا تعلق نوے دن میں الیکشن کروانے سے کیسے ہے ۔بار کونسل کے دیرینہ مطالبات تھے سوموٹو کے قانون پر نظرثانی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ  ملک میں ادارے آپس میں باہم دست وگریباں ہوں تو یہ ملک کے لئے  خطرے کی گھنٹی ہے سپریم کورٹ میں خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے  جو ریاست کے مفاد میں نہیں ہے  ۔بار کونسل اور عام آدمی کا یہ مطالبہ پہلے سے تھا اب یہ آواز سپریم کورٹ سے بھی اٹھنے لگی ہے۔ پارلیمان کو  ایک سوچے سمجھے منصوبے ایوان کو غیر فعال کرنے کوشش کی جا رہی ہے،بار کونسلز اور عام عوام کا یہ مطالبہ پہلے سے ہی تھا اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے عوام کی ترجمانی ہونی چاہیے سینیٹر رضاربانی  نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنے نوٹ میں سوموٹو ایکشن کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کے فردواحد کے حد سے زیادہ اختیار ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے جوڈیشری کے پاس سیاسی کیسز کو لیجایا گیا۔ڈائیلاگ کی بات آج بھی ہو تو وہ پارلیمنٹ سے ہوگی۔اس میں اہم رول چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کا ہوسکتا ہے۔انھوں نے سوال اٹھایا بالادست کو ن ہے؟تمام تر ایشوز سیاسی ہیں مگر سیاسی جماعتیں اپنے تنازعات کے حل کے لئے پارلیمان کو استعمال کرنے کی بجائے عدلیہ میں لے گئیں ۔عدلیہ پر دباؤ آیا اور سیاسی معاملات میں آنا پڑا مگر ثالث بننے یا ثالثی کی بات کرنا آئین کے تحت  عدلیہ کا اختیار نہیں ہے یہ  پارلیمان کا ہے یہی  ڈائیلاگ کی بات کرسکتی ہے  ۔  پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر  علی ظفر نے کہا کہ  یہ بل منظور کرائیں، دیکھ لیجئے گا اگلے پندھرہ دن میں یہ بل عدالت سے کالعدم ہوجائے گا۔ بیرسٹر علی ظفر  نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 میں تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم  کی ضرورت ہے۔ میں فلور پر کہہ رہاہوں کہ یہ بل  اگلے بیس دن میں کالعدم قرار دیاجائیگا۔ ہم صرف فیڈرل قانون فہرست میں ہی قانون سازی کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اختیارات پر قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ بل کمیٹی کے سپرد ہونا چاہیے ۔بل کو کمیٹی میں نہ بھیجنے کی اپنی حکومت میں بھی مخالفت کرتا تھابل پر دو اعتراضات ہیںبل کے وقت پر اعتراض ہے، ابھی اس سے متعلق الیکشن کا کیس سپریم کورٹ کے پاس چل رہا ہے ۔سپریم کورٹ میں آئینی مسئلہ چل رہا ہے، اس پر بحث ہو رہی ہے ۔عدالت پوچھ رہی تھی کہ ائین میں کہاں لکھا ہے کہ پیسے نہ ہونے کی  وجہ سے الیکشن کو لیٹ کیا جاسکتا ہے ۔کیا ہم آئینی ترامیم کے بغیر 184/3 میں ترمیم کر سکتے ہیں۔ایوان میں پوزیشن کے شور شرابہ میں بل کی خواندگی شروع ہوئی۔ سینیٹ اجلاس میں  تحریک انصاف کے سینیٹرز کا احتجاجاً نشستوں سے کھڑے ہوگئے ۔راکین کی جانب سے عدلیہ پر حملہ نامنظور کے بینرز لہرائے  دیئے گئے الیکشن کروا ملک بچا کے نعرے بھی لگائے  گئے  چیئرمین سینیٹ کا گھیراؤ کرتے ہوئے بل کی کاپیاں پھاڑ دی گئیں  ۔ چیئرمین سینٹ نے بل کی شقوار منظوری لی۔بل کی منظوری کے دوران پی ٹی آئی ارکان کا احتجاج اور شور شرابہپی ٹی آئی ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیںبل کی حمایت میں 60 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 19 ووٹ پڑے۔تاہم پی ٹی آئی ارکان کی تعداد28ہے۔  تحریک انصاف کے ارکان دوبار چئیرمین سینٹ کے ڈائس کے گرد جمع ہوئے  سیکورٹی اہلکار ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کے درمیان کھڑے ہوگئے جب کہ فیصل جاوید اور بہرہ مند آمنے سامنے آگئے ایک دوسرے کی طرف باقاعدہ لڑنے کے لئے لپکے۔