انتخابات التوا کیس : حکومتی اتحاد کا سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار
ازخود نوٹس کے 4 رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔اعلامیہ جاری
افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں
جسٹس قاضی فائز عیسی بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے
چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں ، فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں
پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے،امیدہے کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے،وزیراعظم کے زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس کا اعلامیہ جاری
لاہور (ویب نیوز)
وزیراعظم پاکستان شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں انتخابات التوا کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتما دکااظہار کیا گیا ہے،اجلاس کے بعدجاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق اجلاس تقاضا کرتاہے کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے 4 رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کا اہم اجلاس لاہور میں منعقد ہوا ۔ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر خارجہ بلاول بھٹو، جے یو آئی اور حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سالک حسین، مریم نواز، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی بھی شریک ہوئے جب کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ وزیر اعظم کی معاونت کے لیے شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، عطااللہ تارڑ، ملک احمد خان اور اٹارنی جنرل سمیت دیگر رہنما بھی شریک رہے۔اہم اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی و آئینی صورت حال پر گفتگو کے علاوہ سپریم کورٹ میں پیدا ہونے والی صورت حال اوردو صوبوں میں انتخابات سے متعلق مشاورت بھی اہم اجلاس ے ایجنڈے میں شامل رہی۔اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی ۔اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات ہونے چاہئیں، یہ غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے جس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا اور یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہوگی۔ اجلاس نے واضح کیا کہ لشکر اور جتھوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دبا پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی، بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنادیاگیا ہے۔اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں کہا گیا کہ معاشی، سیکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے، خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے جو آئین وقانون اور الیکشن کمیشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔اجلاس کے شرکا نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے 4 معزز ججزدے چکے ہیں۔اجلاس نے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے جو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔اجلاس نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے، متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔اجلاس نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209کے تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔اجلاس نے واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے، اس بابت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں اور یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔ اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ ون مین شو کا تاثر ختم ہو۔اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کاباعث قرار دیا۔ جس کے ذریعے آئین کو ری رائیٹ کیا گیا۔اجلاس نے یہ بھی قرار دیا کہ اعلی ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے۔ لہذا عدالت عظمی کو متازعہ سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں مطالبہ کیاگیاکہ چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیاجائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں اور یہ بھی واضح کیاگیا کہ سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں، انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس کوآئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی سے متعلق آگاہ کیا اور سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان کے درمیان اختلافی فیصلوں اور بینچوں کے اجراسے پیدا ہونے والے صورت حال پر بریفنگ دی۔اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ اس قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں جبکہ عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں داد رسی کا حق دیاگیا ہے جو فطری انصاف اور آئین کی بنیادی منشا ہے۔اجلاس نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے، پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔اجلاس نے ا میدظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کی معاشی صورتحال پر بریفنگ دی۔اجلاس میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، امین الحق ، سردار اختر مینگل، ہاشم نوتزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،محمد طاہر بزنجو، محمود خان اچکزئی، شفیق ترین، اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی ، میاں افتخار حسین ، باپ کے ڈاکٹر خالد مگسی، چوہدری سالک حسین، طاہر بشیر چیمہ،نوابزادہ شاہزین بگٹی شریک ہوئے۔اس کے علاوہ آفتاب احمد شیرپاو، خواجہ محمد آصف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، رانا تنویر حسین، مریم اورنگزیب ، ملک محمد احمد خان، عطا اللہ تارڑ، علامہ ساجد میر، اسلم بھوتانی ، مولانا عبدالغفور حیدری، شاہ اویس نورانی ، کامران مرتضی، محسن داوڑ، فاروق ایچ نائیک، مرتضی وہاب، شیراز راجپر نے بھی اجلاس میں شرکت کی،وزیرعظم شہبازشریف کی زیرصدارت لاہور میں ہونے والے اجلاس میں عدالت عظمی میں چلنے والے انتخابات کے حوالے سے کیس پر تفصیلی گفت وشنید کی گئی اور یہ اجلاس 3 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف اور نوازشریف نے آپس میں مشاورت کی ،شرکا نے وزیراعظم کو مشاورت کیلئے ٹاسک دے دیا تاہم واضح کردیا کہ تحریک انصاف کے کسی بھی غیر آئینی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے تین رکنی بینچ کے بائیکاٹ کی تجویز دی۔نواز شریف نے اجلاس کے دوران کہا کہ فل کورٹ بنے تو ٹھیک ورنہ بائیکاٹ کر دیا جائے، سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے باوجود فل کورٹ تشکیل نہیں دی جا رہی۔ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں نے نواز شریف کی تجویز پر اتفاق کیا۔