• آڈیو لیکس: وفاقی حکومت نے  سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھا دیئے
  • وفاقی حکومت نے درخواست آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کے مقدمے میں جمع کروائی ہے
  • چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر آڈیو لیکس کا مقدمہ نہ سنیں، تینوں معزز ججز 5 رکنی لارجر بنچ میں بیٹھنے سے انکار کردیں
  • آڈیو لیکس کمیشن کے سامنے ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلقہ ہے
  • ماضی کے عدالتی فیصلوں اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ داروں سے متعلق مقدمات نہیں سن سکتے، درخواست میں موقف

اسلام آباد (ویب نیوز)

وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل اور اس کے کام پر حکم امتناع جاری کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھا دیئے۔وفاقی حکومت نے یہ درخواست آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کے مقدمے میں جمع کروائی ہے جس میںتین ججوں بشمول چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی پانچ رکنی بینچ میں شمولیت پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔وفاقی حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے استدعا کی کہ یہ تینوں جج آڈیو لیکس کا مقدمہ نہ سنیں۔وفاقی حکومت نے چیف جسٹس سے مقدمہ کی سماعت کے لئے نیا بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد کے توسط سے دائر درخواست میں مئوقف اختیارکیا گیا ہے کہ ماضی کے عدالتی فیصلوں اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ داروں سے متعلق مقدمات نہیں سن سکتے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ یہ تینوں جج پانچ رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیں اور آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ 26مئی کو اس ضمن میں ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھائے گئے اعتراضات کو پذیرائی نہیں دی گئی جبکہ انکوائری کمیشن کے سامنے ایک آڈیو مبینہ طور پر چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلق بھی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں اور ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ داروں کا مقدمہ نہیں سن سکتے اور اسی بنا پر ماضی میں ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے حکومتی اعتراض پر خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے سامنے موجود چند آڈیو لیکس مبینہ طور پر جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلقہ ہیں۔