• الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبرکو انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم، سپریم کورٹ کا پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کرانے کا حکم
  • آئین الیکشن کمیشن کو 90 دن سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو غیر قانونی حکم جاری کیا،عدالت
  • عدالت نے الیکشن کمیشن کا 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا شیڈول ترمیم کے ساتھ بحال کردیا، الیکشن کا شیڈول بھی جاری
  • وفاقی حکومت کو 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے اور17اپریل تک سکیورٹی پلان فراہم کرنے کی ہدایت
  •  پنجاب کی نگران کابینہ اور چیف سیکرٹری 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو انتخاباتی عملے کے لئے رپورٹ کریں،عدالت کا حکم
  •  کے پی میں الیکشن کی تاریخ کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت، درخواست گزار عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں
  • جسٹس فائزعیسیٰ اور امین الدین خان کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،عدالت

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور کے پی الیکشن التوا کیس میں الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبرکو انتخابات کرانے کا 22مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار د یتے ہوئے پنجاب میں 30 اپریل کے بجائے 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ 17اپریل تک الیکشن کمیشن کو سکیورٹی پلان فراہم کر ے ، فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کئے جائیں، الیکشن کمیشن فنڈز ملنے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کا چیمبر میں جائزہ لیا جائے گا، فنڈز نہ ملے تو متعلقہ حکام کو عدالت حکم جاری کرے گی۔ کے پی میں الیکشن کی تاریخ کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے قرآن کی آیت سے ابتدائی فیصلہ سنانے کا آغاز کیا۔فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ آئین الیکشن کمیشن کو 90 دن سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ عدالت نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو غیر قانونی حکم جاری کیا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کا 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا شیڈول ترمیم کے ساتھ بحال کردیا۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا حکم غیر آئینی قرار دے دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے، صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، آئین وقانون انتخابات کی تاریخ ملتوی کرنے کا اختیارنہیں دیتا، 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا تب انتخابی عمل پانچویں مرحلے پر تھا، الیکشن کمیشن کے آرڈر  کے باعث 13 دن ضائع ہو گئے، الیکشن کمیشن نے غیر آئینی فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ  اختیار سے تجاوزکیا، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں، ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جمع کرانیکی آخری تاریخ 10اپریل ہوگی، 17 اپریل کو الیکشن ٹریبونل اپیلوں پر فیصلہ کریگا، پنجاب میں امیدواروں کی حتمی فہرست 18 اپریل کو شائع کی جائیں، انتخابی نشانات 20 اپریل تک الاٹ کیے جائیں۔سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات شفاف، غیرجانبدارانہ اور قانون کے مطابق کرائے جائیں، وفاقی حکومت 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کا  فنڈ جاری کرے، الیکشن کمیشن 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں فنڈ مہیا کرنیکی رپورٹ جمع کرائے، الیکشن کمیشن فنڈ کی رپورٹ بینچ ممبران کو چیمبر میں جمع کرائے، فنڈ نہ ملنے کی صورت میں سپریم کورٹ متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کریگا۔فیصلہ میں حکم دیا گیا کہ پنجاب حکومت الیکشن کمیشن کو سکیورٹی پلان دے، پنجاب کی نگران کابینہ اور چیف سیکرٹری 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو انتخاباتی عملے کے لئے رپورٹ کریں، نگران حکومت پنجاب میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو تمام معاونت اور وسائل فراہم کرے، وفاقی حکومت پنجاب اور کے پی انتخابات کے لیے وسائل اور معاونت فراہم کرے۔فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت انتخابات کے لیے افواج، رینجرز، ایف سی اور دیگر اہلکار فراہم کرے، وفاقی حکومت 17اپریل تک الیکشن کمیشن کو سکیورٹی پلان فراہم کرے، وفاقی حکومت اور نگران حکومت پنجاب نے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کیا تو کمیشن عدالت کو آگاہ کرے ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کا یکم مارچ کو تین دو کے تناسب سے فیصلہ دیا گیا، سپریم کورٹ کی توجہ دو اقلیتی نوٹسز پر دلوائی گئی، ججز کے نوٹ میں چار تین کے تناسب والا معاملہ قانون کے خلاف ہے، جسٹس فائزعیسیٰ اور امین الدین خان کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔فیصلے میں کہا گیاکہ کے پی میں انتخابات کے لئے گورنر کی طرف سے عدالت میں نمائندگی نہیں کی گئی، کے پی کی حد تک معاملہ زیر سماعت رہے گا، کے پی میں الیکشن کی تاریخ کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے، کے پی میں انتخابات کے لیے درخواست گزار عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر پنجاب اور کیپی کے انتخابات میں تاخیر کے مقدمے کا فیصلہ 6 سماعتوں کے بعد گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔وزارت دفاع کی جانب سے سربمہر لفافے میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی، رپورٹ میں انتخابات کے لیے فوج کی عدم دستیابی کی وجوہات بیان کی گئیں۔کیس کی پہلی تین سماعتیں پانچ رکنی بینچ نے کیں، جسٹس امین الدین نے چوتھی اور جسٹس جمال مندوخیل نے پانچویں سماعت پر کیس سننے سے معذرت کی، جس کے بعد 31 مارچ اور 3 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔آخری سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کا پیغام ہے اب بھی وقت ہے مل بیٹھ کر معاملات کا سیاسی حل نکالیں، پاکستانی قوم کی خاطرسیاسی ڈائیلاگ کریں اورکسی سیاسی نتیجے پرپہنچیں، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے، الزامات لگائے جارہے ہیں کیوں کہ ہرکوئی صرف سیاسی مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے، ایسا نہ ہو کہ دوسرا کوئی غیرضروری معاملہ شروع ہوجائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ججز بھی خود چننا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات سننے کے لیے ججزخود منتخب کیے گئے ہوں، ہمیں تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے، پارلیمنٹ اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونیکا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہوگی، ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی پیش کی گئی وجوہات بھی دیکھیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہوچکی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہوگی، تاہم عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئیگا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔