سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور، جماعت اسلامی کے سینیٹرمشتاق احمدخان کی ترمیم مسترد
پی ٹی آئی سینیٹرز کااسپیکر قومی اسمبلی ڈائس کے سامنے شدید احتجاج ، نعرے بھی لگائے، بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر کی ڈائس کی جانب پھینک دیں
بل پارلیمان کی صوابدید ہے، صدر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں کسی سیاسی جماعت کے رکن نہ بنیں۔وزیر قانون اعظم تارڈ
سپریم کورٹ کے رولز آمر کے دور میں بنائے گئے تھے
اسلا م آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظوری کے لیے پیش کیا۔اس دوران پی ٹی آئی سینیٹرز نے اسپیکر قومی اسمبلی کی ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا اور نعرے بھی لگائے، پی ٹی آئی سینیٹرز نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر کی ڈائس کی جانب پھینک دیں۔اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون کا کہنا تھا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا گیا تھا، صدر نے بل واپس بھیج دیا، صدر مملکت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا پاس کردہ بل پاس واپس بھیجا ہے، دونوں ایوانوں نے اس بل پر بحث بھی کی تھی۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا صدر مملکت نے اپنے خط میں سوالات اٹھائے ہیں، صدر نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ نامناسب ہیں، صدر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کریں، اپنی جماعت کے کارکن کے طور پر کام نہ کریں، صدر صاحب تعصب کی عینک پہن کر جماعت کی سروس شروع کر دیتے ہیں، بل پارلیمان کی صوابدید ہے، صدر کے ایسے الفاظ مناسب نہیں ہیں، صدر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں کسی سیاسی جماعت کے رکن نہ بنیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا صدر تعصب کی عینک اتار کر بل کو پڑھ لیتے، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا تعین بھی ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہی ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، آئین پاکستان کے تحت قانون ساز ایوان پارلیمنٹ ہے، یہ 22 کروڑ عوام کا نمائندہ ایوان ہے، امپیریل کورٹ کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے یہ بل لایا گیا ہے، تمام تر اختیارات اکیلے چیف جسٹس سے لے کر سینئیر تین ججوں کو دیے گئے ہیں۔اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں اس بل پر بحث ہوئی ، پہلے بھی مشورہ دے چکے، صدر پارٹی کارکن نہیں ملک کے سربراہ کے طور پرکام کریں۔ صدر مملکت نے کہا یہ قانون سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت ہے، ہم نے اختیار سپریم کورٹ کے ججز کو ہی دیا ہے۔وزیرقانون کا کہنا تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے اختیار میں اضافہ کیا ہے ، سپریم کورٹ کے معاملات میں شفافیت لائے ہیں ، اس قانون کو سراہا گیا اور کہا گیا کہ یہ قانون پہلے آنا چاہیے تھا، سپریم کورٹ کے رولز آمر کے دور میں بنائے گئے تھے، ون مین شو کا اثر زائل کرنے کیلئے یہ قانون بنایا گیا ہے۔مسلم لیگ ن کی رکن شزا فاطمہ خواجہ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 میں ترمیم پیش کی جس کی وزیر قانون نے حمایت کردی۔ترمیم کے مطابق قانون منظور ہونے کے بعد ججز کمیٹی کا پہلا اجلاس قواعد و ضوابط طے کرنے کے لیے بلایا جائے گا، جب تک ججز کمیٹی رولز نہیں بنالے گی اس وقت تک چیف جسٹس یا کوئی بھی جج میٹنگ بلا سکتا ہے، پہلے اجلاس کے بعد اگلے اجلاس کوئی دو جج بھی بلا سکیں گے۔بعد ازاں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی شق وار منظوری لی گئی جس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے کثرت رائے سے منظور کر لیا، جماعت اسلامی کے سینیٹرمشتاق احمدخان کی ترمیم مسترد کردی گئی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار اب اعلی عدلیہ کے 3 سینیئر ترین ججز کے پاس ہو گا۔ بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔۔