صدر نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل دستخط کیے بغیر پھر واپس بھیج دیا

معاملہ زیرسماعت ہونے کے احترام میں بل پر مزید کوئی کارروائی مناسب نہیں ،صدر مملکت

حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل دوبارہ منظور کروالیا تھا جس کے بعد یہ 20 اپریل کو ایکٹ بن جائے گا

اسلام آباد(ویب  نیوز)

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 دستخط کیے بغیر واپس بھیج دیا۔صدرمملکت نے بل واپسی سے  متعلق کہا   کہ قانون سازی کی اہلیت اور بل کی درستگی کا معاملہ اعلی ترین عدالتی فورم کے سامنے زیر سماعت ہے، اورمعاملہ زیرسماعت ہونے کے احترام میںبل پر مزید کوئی کارروائی مناسب نہیں ۔خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نیسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پرعملدرآمد روک تھا، اور کہا تھا کہ بل پرصدردستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں عملدرآمد نہیں ہوگا۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھاکہ عدالت کسی قانون کو معطل نہیں کرسکتی، بادی النظرمیں بل کیذریعیعدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔بینچز کی تشکیل کے حوالے سے قومی اسمبلی سے ترامیم کے بعد منظور کیے گئے بل میں کہا گیا تھاکہ عدالت عظمی کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔عدالت عظمی کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمی کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔بل میں قانون کے دیگر پہلووں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔پاکستان تحریک انصاف  کے منحرف رکن اسمبلی احمد حسین دیہڑ نے بل پر ایوان، وزیراعظم، اسپیکر اور وزیرقانون کو مبارک باد دی اور کہا کہ اس سے عوام کو حق ملے گا اور یہ وکلا کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اس سے انصاف ملے گا ۔۔