’14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے’، چیف جسٹس کی سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی ہدایت

ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانیکی درخواستوں پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی

عدالت کو بتایا گیا کہ 26اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہو گا

27 اپریل تک سیاسی رابطوں اور ڈائیلاگ کی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی

عدالت کو ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کے لیے مذاکراتی عمل پر کوئی اعتراض نہیں، ملک میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد قانونی اور آئینی سوال ہے

14 مئی کو پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ برقرار ہے اور تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہیں..سماعت کا پانچ صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ

اسلام آباد(ویب  نیوز)

ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانیکی درخواستوں پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانیکی درخواستوں پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔الیکشن کی تاریخ پر سیاسی اتفاق رائے کے لیے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سیاسی قائدین کو  جمعرات کو طلب کیا تھا۔ سماعت کے آغاز میں درخواست گزار  سردارکاشف کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ امید ہے تمام سیاسی جماعتیں ایک نکتہ پر متفق ہوجائیں گی، ایک ہی دن انتخابات سے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کے ذریعے احکامات جاری کریں تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی جماعتیں افہام وتفہیم سے معاملات طے کرتی ہیں توبرکت ہوتی ہے،  سیاسی قائدین کے تشریف لانے پر مشکور ہوں، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہوجائیگا، وزارت دفاع نے بھی عمدہ بریفنگ دی، اٹارنی جنرل کو ایک ساتھ انتخابات کے معاملے پر دلائل دینا تھے لیکن  وہ سیاست کی نذر ہوگئے، آصف زرداری کے مشکور  ہیں انہوں نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا، بڑی بات یہ ہیکہ ن لیگ نے بھی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ حکومتی جماعتوں کا پہلے بھی یہی موقف تھاکہ ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، 90 دنوں کا وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایکسپائر ہوچکا، حکومتی جماعتیں ایک ہی دن انتخابات کے معاملے پر مشاورت کر رہی ہیں، عید الفطرکے فوری بعد اتحادیوں سمیت پی ٹی آئی سے سیاسی ڈائیلاگ کریں گے، ایک ہی روز انتخابات سے پرامن اور صاف شفاف انتخابات ممکن ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں،

پی ٹی آئی سے مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ بہت مشکل ماحول ہے مگر پاکستان کے عوام کی تقدیرکا مسئلہ ہے، ہم یقین رکھتے ہیں مقابلے کے بجائے مکالمہ کرنا چاہیے، ہماری جماعت ایک روز  انتخابات اور  ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے، ہم نے عید کے بعد اپنے رہنماوں کا اجلاس بلایا ہے، اپوزیشن کیساتھ بیٹھ کرانتخابات کا حل نکالنے کے لیے تیار ہیں، ہم سیاست دانوں کی آپس میں دوستی ہے۔سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے، عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی ہیں، ماریں بھی کھائی ہیں، آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ اقتدار میں رہنے کے طلب گار نہیں ہیں، ہم ملک بنانے والوں کی اولادیں ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جھگڑے دکھانے میں سوشل میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ملک میں تلخی بہت بڑھی ہوئی ہے، ہماری جماعت نے سب سے پہلے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا  آغازکیا،ہمیں یقین ہے سیاسی قوتیں بیٹھ کر سب تلخیاں ختم کریں گی، سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں جنہوں نے مذاکرات کی تجویز دی، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کے لیے بات کی۔قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ  تلخ باتیں عدالت میں نہیں ہونی چاہئیں، اپنے پارلیمنٹ کے فورم پر سیاسی تقریریں کریں گے، آئین کے خلاف کوئی کام نہیں ہونے دیں گے، انتخابات کو طول دینیکی کوئی بات نہیں ہے، عدالت کو یقین دہانی کراتے ہیں آئینی مدت سے اوپر وقت ضائع نہیں کریں گے، ٹو پلس ٹو نہیں ہوتا، مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوتا ہے، عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے، آئین بنانے والے ہی اس کے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے ہمیشہ سامنے کھڑے ہوں گے۔مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے آج عدالت پیش ہونے کی ہدایت کی، ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں ایک ہی دن میں الیکشن ہو، ہر صورت ایک دن انتخابات کو سپورٹ کریں گے، چیف جسٹس صاحب آپ نے صحیح فرمایا سیاسی لوگ خود معاملہ حل کریں۔ایم کیو ایم کے رہنما صابر قائم خانی کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے ہمیشہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا احترام کیا، عدالت کیساتھ کھڑے ہیں، جو سب مل کر فیصلہ کریں گے قبول ہوگا، عیدکے بعد امید ہے سب مسائل کا حل نکل آئیگا، ایک ساتھ انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے ڈائیلاگ کے حامی ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اسرار اللہ ترین کا کہنا تھا کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے، ایک ہی دن انتخابات سے سکیورٹی سمیت سب مسائل حل ہوجائیں گے، انتخابات ایک دن ہونا ضروری ہیں ورنہ بلوچستان چھوٹے صوبے کے طور پر متاثر ہوگا۔تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی ایک سیاسی رائے ہے اور ایک قانونی، قانونی رائے میں آئین کے تحت 90 دن میں انتخابات لازم ہیں، تحریک انصاف صرف انتخابات چاہتی ہے، میری جماعت انتخابات کے لیے تیار ہے، سیاسی معاملات کو آگے بڑھانیکے لیے ساتھ دیں گے، پی ڈی ایم نے کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی توڑیں ہم قومی اسمبلی توڑ دیں گے، پی ڈی ایم کے کہنے پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں، پی ڈی ایم نے انتخابات کرانیکا وعدہ کیا تھا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قانونی راستہ تو واضح ہے اب ہمیں سیاسی راستہ بھی دیکھنا ہے، حکومت نے فنڈز سمیت کئی مسائل کا عدالت کو بتایا، مسلم لیگ ن اپنے موقف سے مکرگئی، تحریک انصاف ہمہ گیر مذاکرات کے لیے تیار ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کیا اور آئین کا تحفظ کیا، ہم تلخی کے بجائے آگے بڑھنیکے لیے آئے ہیں، سیاسی قوتوں کو مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، مذاکرات توکئی برس چل سکتے ہیں جیسیکشمیرکا مسئلہ، ہمیں خدشہ ہے حکومت انتخابات کو طول دینا چاہتی ہے، ہمیں ڈر ہے کہ مذاکرات طول پکڑیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے14 مئی کے فیصلے کو قوم نے قبول کیا ہے، حکومت ہمیں پرپوزل دے دیکھیں گیاور نیک نیتی سے راستہ نکالیں گے، موجودہ ملکی حالات کا ہمیں احساس ہے، سپریم کورٹ نے27 اپریل تک فنڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے،

حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر فنڈز فراہم نہیں کر رہی، پارلیمنٹ کی قرارداد سے ملک کو چلانا ہے تو انارکی پھیلیگی، ہم انتشار چاہتے ہیں نہ آئین سے انکار چاہتے ہیں، مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں سب سے پرانا سیاسی ورکر ہوں، ساری قوم سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا، یہ نہ ہوکہ مذاکرات میں چھوٹی اور  بڑی عید اکٹھی ہوجائے، ساری قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ میں  قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کل پاک افغان بارڈرپر تھا، پوری رات سفر کرکے عدالت پہنچا ہوں، قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کارروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے، انتخابات صرف دو جماعتوں کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے، الیکشن صرف ایک لیڈر یا جماعت کے کہنے پر نہیں ہونے چاہئیں، پوری قوم کے مفاد کو دیکھتے ہوئے انتخابات کا فیصلہ ہونا چاہیے۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ آج بھی آئین ملک کو بچاسکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، دنیا کا منظرنامہ تبدیل ہوچکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہوگیا، 1977 میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی تھی، مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا تھا، 90 کی دہائی میں ن لیگ اور  پی پی کی لڑائی سے مارشل لا لگا، آج ہمیں اسی منظر نامیکا سامنا ہے، امریکا ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے، اپنا گھر خود سیاست دانوں کو ٹھیک کرنا ہے، نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد مذاکرات کییگئے، پاکستان  جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا۔ان کا کہنا تھا کہ  خیبرپختونخوا میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفی دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے، خیبرپختونخواوالوں نے خلاف روایت دوسری بارپی ٹی آئی کو ووٹ دیا، ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کے ساتھ، میں  نے وزیراعظم اور عمران خان سے ملاقات کی، مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں، عمران خان کو کہا کہ نہیں چاہتا ملک میں 10 سال مارشل لا لگے، عمران خان نیکہا میری عمر اس سے زیادہ نہیں، میں بھی یہ نہیں چاہتا، کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے، 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے، اگر105 دن ہوسکتے ہیں تو205 دن بھی ہوسکتے ہیں، عیدالاضحی کے بعد مناسب تاریخ پر انتخابات کرائے جائیں۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ  عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے، ہرکسی کو اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا، مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیرسیاسی نہیں ہوئے، سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں، ہمارا موقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو، سیاسی لڑائی کا نقصان عوام کو ہے جو ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ایک کلو آٹے کے لیے لوگ محتاج ہیں، ایک من آٹے کی قیمت6500 ہوگئی ہے، لوگوں کے چہرے سے مسکراہٹ ختم ہوچکی ہے، گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے، بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا، عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خودکو سرخرو کرے، عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے، سیاست دان اتنے اہل ہیں کہ ان معاملات کا حل کرسکیں۔اس دوران فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانیکا آخری دن ہے، سپریم کورٹ نے 20 اپریل تک الیکشن کمیشن کو انتحابی نشان دینے کا حکم دیا، الیکشن کمیشن کو انتخابات کا عمل اپریل میں مکمل ہونیکا حکم دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کو تاریخ آگے بڑھانیکی اجازت دی جائے، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت موقف سن لیگی، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، ان کیمرا بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلیکے خلاف نہیں جانا چاہتا، کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہوسکتی، دوطرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں،گزارش ہوگی کہ پارٹی سربراہان عید بعد نہیں، آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں، عید الاضحی کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے، آج ہی مذاکرات کیے جائیں،  مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ہم ایک چیز واضح کردیں آپ لوگ پولنگ کی تاریخ آگے نہیں بڑھاسکتے، سپریم کورٹ پولنگ کی تاریخ  آگے بڑھانیکا اختیار  رکھتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لیگی، عدالتی فیصلے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،  عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالتی فیصلہ  ہٹانیکا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے، ہم نے اپنا 14 مئی کا فیصلہ قائم رکھنا ہے، 14 مئی کا فیصلہ قائم ہے اور نہیں بدلیگا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست نہیں آئی ہے، وزارت دفاع کی درخواست مذاق لگی، ہم آج بھی سب کو سننے کے لیے تیار ہیں کل بھی عید نہ ہوئی تو سن لیں گے۔عدالت نے سیاسی جماعتوں کو 4 بجے تک مذاکرات کا وقت  دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔وقفے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں ان سے ملاقات کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے 14 مئی کو انتخابات کے حکم پر عمل روکنے کی استدعا کی، چیف جسٹس نے پنجاب میں انتخابات کا حکم روکنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کی۔سپریم کورٹ کے حکام نے بتایا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے تک 14 مئی انتخابات کے حکم پر عمل درآمد روکنے کی اجازت نہیں دی، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی چیمبر آمد پر پی ٹی آئی کے وکلا کو نہ بلانے پر معذرت کا پیغام بھجوایا۔اس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس کو آگاہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ سماعت اب 27اپریل کو ہوگی،چیف جسٹس نے گزشتہ روز کی سماعت میں کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو گنجائش نکال سکتے ہیں، سیاسی مذاکرات میں اتفاق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم 14مئی کا حکم دے چکے ہیں۔وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی اور سپریم کورٹ نے درخواست پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی۔سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے حوالے سے کیس کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ 26اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہو گا، 27 اپریل تک سیاسی رابطوں اور ڈائیلاگ کی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی، جس میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان رابطے کے حوالے سے بتایا گیا، عید کی چھٹیوں کے باعث رابطوں میں وقفہ کیا جا رہا ہے، اکثر سیاسی رہنما عید کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں ہیں، رہنماوں کی مزید ملاقات 26 اپریل کو ہوگی۔عدالت کو مزید بتایا گیا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے عدالت کے سامنے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کی رائے سے نہ صرف مثبت ردعمل بلکہ اتفاق بھی کیا، سیاسی جماعتوں نے پیش ہو کر اس عزم کو دہرایا کہ آئین سپریم ہے، اگر سیاستدانوں کے مابین تمام اختلافات پر مذاکراتی عمل شروع ہوا تو اس پر کافی وقت خرچ ہونے کا امکان ہے، تمام اختلافات پر مذاکرات کا اصل فورم سیاسی ادارے ہیں۔حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت کو ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کے لیے مذاکراتی عمل پر کوئی اعتراض نہیں، ملک میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد قانونی اور آئینی سوال ہے، 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ برقرار ہے اور تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہیں، کیس کی مزید سماعت 27 اپریل کو ہو گی۔۔