- نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے، وکیل علی ظفر
- میں ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مذاکرات کی بات کی، مذاکرات بالکل ہونے چاہئیں، دونوں جانب سلجھے ہوئے لوگ ہیں،اٹارنی جنرل
- اٹارنی جنرل صاحب آپ مذاکرات دوبارہ کیوں شروع نہیں کرا سکتے؟،چیف جسٹس
- حکومت نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا تھا، مذاکرات تحریک انصاف نے ختم کئے تھے،اٹارنی جنرل
- اٹارنی جنرل صاحب آپ کو آگے آنا ہوگا، اپنے موکل کو بتادیں، فریقین سے امید رکھتے ہیں کہ ماحول بہتر ہوگا،چیف جسٹس عمرعطابندیال
- سیاسی جماعتوں سمیت فریقین، اٹارنی جنرل، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری ،مزید سماعت اگلے منگل 23(مئی تک) ملتوی
لاہور (ویب نیوز)
پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا،انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں، ایگزیکٹیو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلی معیار برقرار رکھیں، اس ماحول میں آئین پر عمل درآمد کیسے کرایا جائے؟۔ پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فنڈز اور سکیورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا تھا، آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے، نظر ثانی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کے لئے کتنا وقت چاہیے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ مجھے دلائل کے لیے 3 سے 4 گھنٹے چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم تمام فریقین کو سنیں گے، یہ ایک نظرثانی درخواست ہے اس میں تیاری کے لیے کتنا وقت چاہیے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس معاملے میں 2 احکامات ہیں، اس وقت ملک کی آدھی آبادی نمائندگی کے بغیر ہے، عدالت اس وقت اپنے احکامات پر عمل کے لئے حکم جاری کرے۔انہوں نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا موقف سننا چاہتے ہیں، صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر کے سنیں گے، دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے، عدالتی حکم پر عملدرآمد کرایا جائے، عدالت نے جو حکم دیا ہے وہ حتمی ہے۔دریں اثنا عدالت نے وفاق، پنچاب، خیبرپختونخوا اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس اہم کیس کی سماعت ہے، کیوں نہ یہ سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دیں، جلدی تب کرتے جب معلوم ہوتا کہ الیکشن کا وقت آ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ادارے سیریس تھریٹس کے اندر ہیں، میرا مشورہ ہے پرامن ماحول کے لئے کردار ادا کریں، آج دیکھ لیں، حکومت بے بس ہے، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں، لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے، میں نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی فوٹیج دیکھی ہے، انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں، ایگزیکٹیو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلی معیار برقرار رکھیں، اس ماحول میں آئین پر عمل درآمد کیسے کرایا جائے؟ ایک طرف سے بھی اخلاقیات کی پاسداری کی جاتی تو عدالت دوسری طرف کو الزام دیتی۔۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی دائرہ اختیار کا نکتہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں اٹھایا تھا، وفاقی حکومت یہ نکتہ اٹھاسکتی تھی لیکن انہوں نے نظرثانی دائر ہی نہیں کی۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب مذاکرات ختم کر کے بات آئین کی عملداری پر آگئی، ہماری مذاکراتی ٹیم کے دو فریق گرفتار ہوچکے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مذاکرات کی بات کی، مذاکرات بالکل ہونے چاہئیں، دونوں جانب سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ مذاکرات دوبارہ کیوں شروع نہیں کرا سکتے؟۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا تھا، مذاکرات تحریک انصاف نے ختم کئے تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین سیاسی حقوق کا ضامن ہے، ہمیں سیاسی معاملات میں نہیں جانا، نہ ہی کچھ سننا چاہتے ہیں، امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو آگے آنا ہوگا، اپنے موکل کو بتادیں، ہم فریقین سے امید رکھتے ہیں کہ ماحول بہتر ہوگا۔پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا۔عدالت نے سیاسی جماعتوں سمیت فریقین، اٹارنی جنرل، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کر دیئے اور کیس کی مزید سماعت اگلے منگل 23(مئی)تک ملتوی کردی۔