سب پیچھے ہٹیں ورنہ پاکستان گیا، وارننگ، وارننگ، وارننگ
بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ ریاستی، تشدد، جبر، مقدمات، بے توقیری، تذلیل اور نفرت سے کب معاملات سنبھلے تھے۔ جو آج سنبھلیں گے۔ چینی وزیر خارجہ کی کسی نے بات نہیں مانی۔
تجزیہ نگار…ناصر جمال
خدائوں کو سہارے کی طلب ہے
یہ معبد لڑکھڑائے جارہے ہیں
یہ سرکس اب پرانا ہوگیا ہے
نئے کرتب سکھائے جارہے ہیں
(شہزاد احمد شہزاد)
بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ ریاستی، تشدد، جبر، مقدمات، بے توقیری، تذلیل اور نفرت سے کب معاملات سنبھلے تھے۔ جو آج سنبھلیں گے۔ چینی وزیر خارجہ کی کسی نے بات نہیں مانی۔ چینی اتنے برملا، کچھ نہیں کہتے۔ مگر انھوں نے اسلام آباد میں، یہ کُھل کر بیان کرنا، اس لئے مناسب سمجھا کہ پاکستان کے نادان حکمران اور مائی باپ، کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ انھوں نے سرعام مشورہ دیا۔ اپنے سیاسی حالات سنبھالیں۔ مگر ہم نے، ان کی بات سمجھنا تو درکنار، شاید سننا بھی گوارہ نہیں کی۔ کور کمانڈر اور جی۔ ایچ۔ کیو سمیت احتجاج، جلائو، گھیرائو تو بعد کی بات ہے۔ اُس سے پہلے ہم نے کونسا’’سیاسی و انتظامی اتمام حُجت‘‘ کیا ہے۔
جو جتنا طاقتور ہے۔ حالات بگاڑنے میں، اُس کا حصہ اور کردار بھی اتنا ہی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری نہیں بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ’’اغوا‘‘ نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔ غصہ جب غالب ہوتا ہے تو، عقل وہاں سے فرار ہوجاتی ہے۔
نو مئی کو یہی کچھ ہوا۔ پھر کیا تھا۔ ہر کسی نے ’’اپنا‘‘ غصہ نکالا۔ تمام واقعات کی ترتیب کا جائزہ اور تجزیہ کرنا، بہت ضروری ہے۔ کچھ بھی بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں ہے۔ حالیہ واقعات کا ’’گرے ایریا‘‘ بہت بڑا ہے۔
مادر و ملت فاطمہ جناح، بھٹو، پیپلز پارٹی، نواز شریف، ن لیگ اور اب تحریک انصاف کے ساتھ وہی پرانے حربے آزمائے جارہے ہیں۔ لوگوں کو مارو، ڈرائو، پارٹی توڑ دو، حب الوطنی کے راگ پاٹ لوگوں کو سنائو، اپنے حق میں ریلیاں نکلوائو، ہر شعبے سے بیانات دلوائو ، مقدمات بنائو، پولیس کو خوف اور دہشت کی علامت بنا دو، نظر بند کر دو، کوڑے، چھتر مارو، بندہ قابو نہیں آتا تو اُس کے عزیز و اقارب، بچوں کو بھی نہ بخشو۔
خواتین کی بے حرمتی کے ریکارڈ، بہرحال پہلی مرتبہ بنے ہیں۔ ویسے ہم نے تو ’’فاطمہ جناح‘‘ کو بھی نہیں بخشا۔ ہم انھیں مادر ملت کہتے تھے۔ انھیں غدار کہا گیا۔ ان کا انتخابی نشان لالٹین، کتیا کے گلے میں ڈال کر گجرانوالہ میں گھمایا گیا۔ پھر بہن، بھائی کا اسکینڈل تک گھڑا گیا۔ بی۔ بی۔ سی کا نمائندہ تک، اُس تذلیل پر رو پڑا تھا۔
سب سے عجیب بات ہے کہ یہ سب کا سب، فوجی ادوار میں ہوا۔ اس بار بظاہر ’’سول حکومت‘‘ ہے۔ مگر پھر لوگ’’افواج‘‘سے کیوں ناراض ہیں۔
ہمیں تجزیہ تو کرنا چاہئے کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف جس نے بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنایا، اُسے ہی لوگوں نے کیوں سر آنکھوں پر بٹھایا اور بٹھا رہے ہیں۔ آخر کیوں، لوگ اس بیانیے پر کیوں فدا ہیں۔ میں کوئی ماضی بعید کی بات ہی نہیں کررہا۔ گذشتہ چار سال دیکھ لیں۔
کیا وجہ، لوگ اس بیانیے کو کیوں خرید رہے ہیں۔آج آصف زرداری اور نواز شریف، بلاول اور مریم، مولانا فضل الرحمٰن فوج، فوج کررہے ہیں۔
میمو اسکینڈل کیا تھا۔ ڈان لیکس کیا تھیں۔ کیا میاں نواز شریف نے بمبئی حملے کا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈالا۔ مولانا فضل الرحمٰن جرنیلوں کو کیسے للکار رہے تھے۔ انھوں نے تو سابقہ سپہ سالار کو یہاں تک کہا تھا کہ مرنے اور مارنے سے نہیں ڈرتا۔ جس باخبر سے پوچھ لو۔ حتیٰ کہ مولانا کے قریب ترین لوگ بھی یہی کتھا سنایا کرتے تھے۔ آج جرنیل فیض آسان ٹارگٹ ہے۔ اُس وقت کہتے تھے۔ وہ مولانا کے ذاتی دوست ہیں۔ اور وہی جنرل باجوہ کے پاس مولانا کو ’’پرفیوم‘‘ کے تحائف دلوانے گئے تھے۔
مادر ملت کا ساتھ دینے والوں کو نشان عبرت بنایا گیا۔ مادر ملت سے بے وفائی تو موجودہ پاکستان کے سیاسیوں نے کی تھی۔ مشرقی پاکستان نے تو مادر ملت سے ’’وفا‘‘ نبھائی تھی۔ اس وقت بھی’’ریاستی طاقت‘‘ کے سامنے، سیاسی خانوادے اور کونسلرز ایسے ہی ’’ضمیر کے بوجھ‘‘ کے تلے، ایوب خان کی حمایت کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی کے لوگوں کے سامنے بھی دوہی آپشن تھے۔ بھٹو کو چھوڑو یا پھر کوڑے، شاہی قلعے، مقدمات ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے بیان حلفی دے کر اپنی جانیں چھڑوائی تھیں۔ پھر پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو نشان عبرت بنایا گیا۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کو غدار بنا دیا گیا۔ بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ پارٹی توڑ دی گئی۔ ہر پارٹی چھوڑنے والا، محب الوطن قرار پایا۔
جام صادق مرحوم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا، پیچھے طاقت کونسی تھی۔
پھر میاں نواز شریف کی باری آئی۔اُس نے جب تک ’’دوستوں‘‘ کی آواز پر لبیک کہا وہ لاڈلے تھے۔ دو تہائی اکثریت بھی دی گئی۔جب اُن کے اقبال بلند ہوئے تو وہ نشانے پر آگئے۔ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف کو گرفتار کرنے سے منع کر دیا۔ چوہدری غلام عباس کو کہا کہ مجھے اس سے بے وقوف اپوزیشن لیڈر نہیں ملے گا۔ بے نظیر کی دونوں ادوار میں ’’اپوزیشن‘‘ نواز شریف کب تھے۔ اصل اپوزیشن ’’باسز‘‘ ہی تھے۔
جس روز نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو ملک سے جانے پر مجبور کر دیا۔ محترمہ نے اُسی روز کہا کہ اب نظام نہیں بچے گا۔ اپنا متبادل ،نواز شریف نے خود ختم کر لیا ہے۔ اب اُس کا ایمپائروں سے براہ راست میچ پڑے گا۔
پھر وہی ہوا۔ ٹیک اوور ہوگیا۔ نواز شریف اور اُس کی پارٹی پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ پارٹی تباہ کر دی گئی۔ خواجہ آصف ، احسن اقبال جیسے لوگ بطور مہرے پارٹی میں رہنے دیئے گئے۔ آج یہ بڑے بھاشن دیتے ہیں۔ قلم کار نےکراچی میں
احسن اقبال کو میاں نواز شریف کے خلاف پریس کانفرنس، (حفیظ الدین کے گھر) اٹینڈ کی ہوئی ہے۔ پھر صحافیوں کی منت ترلے ہوتے رہے۔ پریس کانفرنس نہ چھاپیں۔ نوائے وقت میں تو موصوف کا بیان، آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
بیگم کلثوم نواز نے کمال سیاسی جدوجہد کی۔ وہ اپنے خاندان سمیت سعودی عرب لے جانے کی ڈیل کرنے میں کامیاب رہیں۔
کسی نے ازراہ تفنن لکھا کہ ’’میاں صاحب نے اڑ جانے والے پرندوں کے بعد بقیہ پارٹی کو جمع کیا اور کہا کہ میں شمع بجھانے لگا ہوں۔ جس، جس نے جانا ہے چلا جائے۔ جب شمع جلائی گئی تو بقیہ پارٹی وہیں تھی۔ میاں نواز شریف سعودی عرب جاچکے تھے۔
سرور پیلس سعودی عرب میں کسی جذباتی لاہوری کارکن نے کہا کہ میاں صاحب، آپ کو پاکستان میں لوگ یاد کرتے ہیں۔ آپ قدم بڑھائیں، ہمارے سر حاضرہیں۔
میاں نواز شریف نے غصے سے کہا کہ چپ ہوجائو۔ میں نے قدم بڑھایا تھا۔ پھر میرے ساتھ کیا ہوا۔
مجھ سے پنجابیوں کی تو بات ہی نہ کرو۔ شکر ہے رحمت حسین جعفری پنجابی جج نہیں تھا۔ وگرنہ مجھے پھانسی ہوجاتی۔
ہماری تاریخ وہ، بطور مسلمان ہو یا پاکستانی کے، اپنے رہنمائوں کےحوالے سے قطعاً تابناک نہیں ہے۔ آپ ہی بتائیں، ہم نے کیا، کیا ہے۔
حالات یہ ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کی لکھی گئی کتاب، میرا بھائی پر مبینہ طورپر پابندی ہے۔ یہ ہے ہمارا اصل چہرہ،قائد کی خراب ایمبولینس سے لیکر لیاقت علی خان کے قتل، مادر ملت کی پراسرار موت، حمود الرحمٰن کمیشن، بھٹو کی پھانسی، محترمہ کی شہادت اور آج 9 مئی کے واقعات تک قوم کے سامنے کونسا سچ ہے۔ ہم نے ہر چیز کو دبایا۔طاقتوروں نے کہا جو ہم کہہ ، سنا اور بتا رہے ہیں اسی کو سچ مانو۔جس کے باعث اب تاریخ کے قبرستان سے تعفن شروع ہوچکا ہے۔
آصف زرداری کی ذات سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ مگر اُس پر کونسا ظُلم تھا جو نہیں ڈھایا گیا۔ منشیات کیس میں جج، ان کو پھانسی کی سزا، لکھ کر لے آیا تھا۔ وہاں جھگڑا ہوا۔ جج گھبرا کر بھاگ گیا۔
زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی۔ میاں نواز شریف نے لندن جاکر، جو تقاریر کیں۔ اُس کے بعد کیا ہوا۔ وہی ہوا۔ جو عمران خان کے ساتھ ہوا۔ آصف زرداری اور نواز شریف عمران خان کے ساتھ وہی کر رہے ہیں۔ جو اُس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپنے مخالفین کے ساتھ کیا۔اس ضمن میں وہ خود کو، یہ کہہ کر پاک دامن قرار نہیں دے سکتا کیا کہ وہ سب تو میں نے اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر کیا تھا۔بین اسی طرح آج کے حکمران بھی مستقبل میں کوئی ایسا دعویٰ نہیں کر سکیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف تلخ تجربات سے گذرے تھے۔ عمران خان ناتجربہ کاری میں مارا گیا۔ مگر کیا وہ پانی غلطی پھر سے نہیں دہرائے گا۔
تمام سیاستدان ساتھی ایک ہی پارٹی کے بنے، ملک کی مضبوط ترین پارٹی کے ساتھی۔
کبھی جنرل اسلم بیگ نے بطور جے۔او۔ سی۔ اوکاڑہ کہا تھا کہ اس ملک میں دو پارٹیاں ہیں’’سیاستدان اور ہم‘‘ ہم اس ملک کی سب سے مضبوط پارٹی ہیں۔ کیونکہ ہم متحد ہیں۔
مگر اس وقت ملک میں تین پارٹیاں ہیں۔ فوج،۔ حکومت اور عمران خان۔ حکومت کا نمبر تیسرا ہے۔ فوج اور عمران خان نمبر ایک پوزیشن کے لئے لڑے رہے ہیں۔ اگر عمران خان ’’ڈٹ‘‘ گیا تو اُس کا ’’دائو‘‘ لگ بھی سکتا ہے۔ اس کے پاس، اس بار طاقت آئی تو اُسے نمبر ون بننے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔جتنی من مانی وہ اس بار کر سکے گا شاید ہی کبھی کر سکتا۔اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے اسے بتا دیا ہے کہ عدالتیں قانون،آئین کچھ نہیں ہوتا۔اور یہی راستہ اس ملک کے لیے تباہ کن ہوگا اگر اس نے بھی مستقبل میں اختیار کیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے، اپنے بندے پارٹی سے نکال کر عمران خان کی مشکل آسان کر دی ہے۔ انھیں عقل بعد میں آئی۔ جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ اس لئے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو ”کیمو فلاج“ رکھا گیا ہے۔ آرمی فیملی والا فارمولا تو اسد عمر کے بہت ہی آسان ہے۔ علی زیدی کو بھی اسی لئے پیچھے ہٹانا پڑا ہے۔
قارئین!!!
اس وقت سپہ سالار کی پشاور کے بعد، سیالکوٹ میں ’’اپنے‘‘ لوگوں سے مبینہ خطاب کی گونج صرف پاکستان ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر سنائی دے رہی ہے۔ اس ضمن میں وضاحت سامنے نہیں آئی۔ خاموشی ہے۔
مگر زلمے خلیل زاد کے ٹویٹ نے صرف پاکستان ہی نہیں۔ پینٹاگون، سی۔ آئی۔ اے، برطانیہ، چین، یورپ، ہندوستان تک میں بھونچال برپا کر دیا ہے۔ ان کا ٹویٹ تباہ کن ہے۔
اس پر آئی۔ ایس۔ پی آر۔ کو سامنے آنا پڑے گا۔ وگرنہ بے چینی اور بے یقینی میں اضافہ ہوگا۔ جو کہ پاکستان کے لئے، قطعاً بھی نیک شگون نہیں ہے۔ عمران خان نے پسپائی کی ’’دُکی‘‘ کا پتا پھینکا ہے۔ کہیں پر کچھ صلح جو قوتیں یقینی طور پر سرگرم ہیں۔ اگر سیاسی درجہ حرارت نیچے نہ گیا توتباہی ہوگی۔ ہماری ’’ایٹمی ڈاکٹرائن‘‘ خطرے میں ہے۔ ’’اثاثے‘‘ محفوظ ترین ہونے کے باوجود، شدید خطرات سے لاحق ہوچکے ہیں۔ بات مضبوط ترین کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے آگے جاسکتی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے خوفناک ’’فلر‘‘ چھوڑا ہے۔ اُس کے تعلقات، اس کی بات کہاں اثر رکھتی ہے۔ ہمیں اس پر جذباتی ہونے کی بجائے، ٹھنڈے دماغ سے، ریاست اور معیشت کے مفادات سامنے رکھتے ہوئے، تجزیہ کرنے اور اس کی روشنی میں فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ ہم صحیح معنوں میں حقیقی خطرے سے پہلی بار دوچار ہوئے ہیں۔
چین، سعودی عرب اور ترکی نے ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ میں جی 20 کے اجلاس میں شرکت سے انکار کرکے، ہمیں بین الاقوامی تنہائی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا ہے۔صرف ایک لمحے کے لئے یہ سوچیں گی یہ تینوں دوست ملک اگر جی۔20 کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں چلے جاتے تو ہمارے پاس کونسا آپشن رہ جاتا۔یوں سمجھیں کہ تین 371 پر بین الاقوامی ٹھپہ لگ جاتا۔پھر چاہے کتنا ہی آپ کشمیر کشمیر پیٹتے رہتے۔انڈیا نے وہ پروپیگنڈا کرنا تھا کہ آپ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔
آخر ہم کب تک، یونہی رسوا ہوتے رہیں گے۔
سپہ سالار حکومت اور عمران خان کو ضد، انا، اپنے بیانیہ سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔ ملک میں انتخابات ناگزیر ہیں۔ عمران خان نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
انتخابات کی تاریخ پر سب کو متفق ہونا پڑے گا۔ آپریشن ردِ پی۔ ٹی۔ آئی فوری ختم کرنا ہوگا۔ فوری غیر جانبدار نگران حکومتیں چاروں صوبوں اور مرکز میں قائم کی جائیں۔ الیکشن کمیشن تحلیل کرکے، غیر جانبدار الیکشن کمیشن لایا جائے۔ پرنسپل اور چاروں صوبوں کےغیر جانبدار چیف سیکرٹری، آئی۔ جیز، چیئرمین نیب، ڈی جی آئی۔ ایس۔ آئی ، ایف۔ آئی اے، آئی۔ بی، تبدیل کر دیئے جائیں۔
انتخابی ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کروایاجائے۔ بلکہ ’’متناسب نمائندگی‘‘ کے تحت انتخابات کروا دیئے جائیں۔ تاکہ حلقے کی سیاست کا گندہ کام ختم ہو۔ وزیراعظم کا انتخاب براہ راست ہوسکتا ہے۔
چند جلسے، بڑی الیکٹرونک مہم، امریکی صدارتی انتخاب کی قریب، قریب بنا کر، الیکشن میں جائیں۔ تاکہ تقسیم سے بچا جاسکے۔ انتخابی ماحول کشیدہ نہ ہو۔ انتخابات بہرحال کروانا ہی پڑیں گے۔اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں ہے۔ دو سال کی نگران حکومت کا ’’خواب‘‘ اس ملک میں تباہی و بربادی کی نئی داستانیں لکھے گا۔
اس لئے، سب پیچھے ہٹیں۔ وقت تاریخ اور حالات کی وارننگ کو سمجھیں۔
گلیوں، گلیوں بھٹک رہا ہے وہ سنہری خواب جیسے
میرے بڑوں نے اپنی لاکھوں نیندیں بیچ کے پالا تھا
(امجد اسلام امجد)