معاشی حالات بگڑ گئے، مہنگائی بلندترین سطح پرجاپہنچی، اسٹیٹ بینک

کراچی( ویب  نیوز)

رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ  میں ملکی معاشی حالات میں بگاڑ دیکھا گیا، عمومی مہنگائی بڑھ کر کئی دہائیوں کی بلند سطح تک پہنچ گئی، بیرونی کھاتے پر دبا کو کم کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک نے درآمدات کو محدود کرنے کی خاطرمختلف ضوابطی اقدامات متعارف کرائے۔اسٹیٹ بینک نے  مالی سال 23 کی ششماہی رپورٹ جاری کردی جس میں جولائی تا دسمبر  ملکی معیشت کا جائزہ لیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بیرونی جاری کھاتے اور بنیادی مالیاتی توازن میں پالیسی پر مبنی بہتری کے باوجود مالی سال 23 کی پہلی ششماہی میں پاکستان کے معاشی حالات میں بگاڑ دیکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے دوران اہم خدشات میں مضر عالمی معاشی حالات، آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل کے بارے میں بییقینی، ناکافی بیرونی فنانسنگ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی پست سطح شامل تھے جن میں شدید سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے شدت آ گئی۔ خصوصا، زرعی پیداوار اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) دونوں سکڑ گئے، جبکہ عمومی مہنگائی بڑھ کر کئی دہائیوں کی بلند سطح تک پہنچ گئی۔ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے مالی سال 23 کی پہلی ششماہی میں پالیسی ریٹ میں مزید 225 بی پی ایس کا اضافہ کر دیا جبکہ اس سے قبل مالی سال 22 کے دوران اس میں 675 بی پی ایس اضافہ کیا گیا تھا۔اسی طرح، حکومت نے گرانٹس، زراعانت اور ترقیاتی شعبوں میں وفاقی اخراجات کم کر دیے۔ مزید برآں، بیرونی کھاتے پر دبا کو کم کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک نے درآمدات کو محدود کرنے کی خاطرمختلف ضوابطی اقدامات متعارف کرائے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملکی طلب میں نمایاں کمی کے باوجود مہنگائی کے اعدادوشمار مالی سال 22 کی دوسری ششماہی سے بدستور بلند ہیں۔ مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے دوران کئی عوامل صارف اشاریہ قیمت ملکی مہنگائی کو 25.0 فیصد تک لے گئے جن میں اجناس کی بلند عالمی قیمتیں، مہنگائی کی بلند توقعات اور بعض ملکی عوامل شامل ہیں جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت میں یہ 9.8 فیصد تھی۔سیلاب کی بنا پر ہونے والی رسدی قلت سے غذائی اشیا کے نرخ بڑھ گئے جس سے مجموعی مہنگائی، غیر غذائی غیر توانائی اور توانائی کے گروپوں میں بھی مہنگائی بڑھ گئی۔علاوہ ازیں، مہنگائی کے دباو کو مزید بڑھانے والے عوامل پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور بجلی کے نرخوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہیں۔ ان رسدی دھچکوں کے دورِ ثانی کے اثرات مزید اشیا کی قیمتوں اور اجرتوں پر پڑے، نیز مہنگائی کی توقعات میں بھی اضافہ ہوا چنانچہ قوزی مہنگائی بڑھ گئی۔رپورٹ میں مالیاتی شعبے کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اہم غیر سودی اخراجاتِ جاریہ میں کمی ہوئی خاص طور پر زرِ اعانت، گرانٹس، اور ترقیاتی اخراجات میں، جس سے مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی فاضل رقم میں بہتری آئی۔ تاہم مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے لحاظ سے گذشتہ سال ہی کی سطح پر رہا کیونکہ سودی ادائیگیاں تیزی سے بڑھ گئی تھیں