پاکستان اور بھارت کو براہ راست مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
سری نگر میں جی بیس اجلاس میں شرکت ، برطانیہ کے کشمیر پر دیرینہ موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔برطانوی ہائی کمیشن
پاکستان اوربھارت کو کشمیر کی صورت حال پر دیرپا سیاسی حل تلاش کرنا ہے جو کہ کشمیری عوام کی امنگوں کو ملحوظ خاطر رکھے
اسلام آباد(صباح نیوز)
برطانیہ نے سری نگر میں جی بیس اجلاس سے متعلق واضح کیا ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے فیصلے سے ان کے کشمیر پر دیرینہ موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو براہ راست مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔سری نگر میں سہ روزہ جی 20 فورم کے سیاحتی ورکنگ گروپ کا اجلاس پیرسے شروع ہو رہا ہے جس میں جی 20 ممالک کے سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین شرکت کریں گے۔پاکستان نے انڈیا کی جانب سے اس ورکنگ گروپ کے اجلاس کے سری نگر میں انعقاد پر اعتراض اٹھایا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر متنازع مانے جانے والے علاقے میں اس گروپ کا اجلاس نہیں ہونا چاہیے۔اس ضمن میں چین نے یہ کہہ کر اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا کہ یہ ایک متنازع علاقہ ہے۔ نیوزپورٹل انڈپینڈنٹ اردو کے بھیجے گئے سوال پر اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ برطانیہ جی20 سیاحتی ورکنگ گروپ کے اجلاس میں، سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے، شرکت کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس فیصلے سے برطانیہ کی دیرینہ پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ پاکستان اور انڈیا کو کشمیر کی صورت حال پر دیرپا سیاسی حل تلاش کرنا ہے جو کہ کشمیری عوام کی امنگوں کو ملحوظ خاطر رکھے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے اسی سوال پر بذریعہ ای میل جواب دیتے ہوئے کہا کہ سری نگر میں ہونے والے جی 20 ایونٹ پر سوالات براہ راست انڈین حکومت کو بھیجے جانے چاہییں۔تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یہ کہا کہ ہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان حل طلب مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے رہیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ اہم تعلقات کی قدر کرتا ہے اور ان تعلقات کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔اسی طرح یورپی یونین سے بھی سوال کیا گیا مگر ان کی جانب سے کہا گیا کہ فی الحال ان کے پاس اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی ایکسپرٹ موجود نہیں ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس اجلاس کو سری نگر میں منعقد کر کے انڈیا جموں و کشمیر کی بین الاقوامی متنازع حیثیت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔سیاحت کے موضوع پر جی 20 ممالک کا انڈیا میں یہ تیسرا اجلاس ہے۔ اس سے پہلے دو اجلاس گجرات اور مغربی بینگال میں ہو چکے ہیں۔ گجرات میں ہونے والا اجلاس پاکستان سے ملحقہ علاقے رن آف کچ میں تھا۔ رن آف کچ کا علاقہ بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین تنازع کے باعث رہا ہے۔جی 20 گروپ کا قیام 1999 میں رکھا گیا تھا جس کا مقصد معاشی معاملات پر رابطہ کاری تھی۔ 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد اس فورم کو 2008 میں سربراہان مملکت کا درجہ دے دیا گیا۔جی 20 فورم کے ایجنڈے پر اب اقتصادی معاملات کے علاوہ تجارت، ترقی، صحت، زراعت، انرجی، موسمیاتی تبدیلی اور انسداد کرپشن کے موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔جی 20 میں 19 ممالک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان ممالک میں آرجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، جنوبی کوریا، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقا، ترکی، برطانیہ، اور امریکہ شامل ہیں۔رواں سال کی صدارت انڈیا کے ذمہ ہے اور اگلے سال یہ صدارت برازیل کو سونپ دی جائے گی۔پیر کو ہونے والا اجلاس محض ورکنگ گروپ اجلاس ہے جس میں صرف سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والا وزرا اور ماہرین شامل ہوں گے۔ جی 20 کا سب سے اہم اجلاس جی 20 سمٹ ہے۔ 9 سے 10 ستمبر کو نئی دہلی میں لیڈران کی سمٹ ہو گی جس میں توقع ہے کہ رکن ممالک کے سربراہان مملکت اس میں شرکت کریں گے۔رکن ممالک کے علاوہ بنگلہ دیش، مصر، متحدہ عرب امارات، سپین، نائجیریا، نیدرلینڈز، عمان، سنگاپور، اور موریشیس کے سربراہان کو بھی بطور مہمان مدعو کیا گیا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر عالمی تنظیموں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہ