سرینگر (ویب نیوز)
جی ٹوئنٹی گروپ کی میٹنگ کے پہلے دن پریس کانفرنس کے دوران ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے بعض سوالات سے بھارتی وزیر جتیندر سنگھ سخت ناراض ہو گئے۔ سری نگر میں سکیورٹی کے سبب شہریوں کو کافی مشکلات پیش آرہی ہیں۔جرمن میڈیا کے مطابق جی ٹوئنٹی گروپ کی سیاحت پر میٹنگ کو انتہائی اہم قرار دیے جانے کے باوجود بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پیر کو شروع ہونے والی اس تین روزہ میٹنگ میں سعودی عرب، ترکی اور چین کے علاوہ مہمان ملک مصر بھی حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ ان ملکوں کی غیر حاضری اور کشمیر میں سکیورٹی اور سیاسی عمل کے حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے بعض سوالات پر بھارتی وزیر جتیندر سنگھ خاصے ناراض نظر آئے اور ایسے سوالات کرنے پر صحافیوں پرمخصوص”ذہنیت”رکھنے کے الزامات عائد کردیے۔بی جے پی کے رہنما جتیندر سنگھ سائنس و ٹیکنالوجی اورخلائی تحقیق سمیت کئی شعبوں کے وزیر کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم کے دفتر میں وزیرمملکت کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتے ہیں۔ ان کا تعلق جموں وکشمیر سے ہے۔ جب پریس کانفرنس کے دوران ایک بھارتی صحافی نے جتیندر سنگھ سے پوچھا کہ اگر کشمیر میں اتنے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی پروگرام کا انعقاد ممکن ہے تو پھر سیاسی عمل ممکن کیوں نہیں ہے؟بھارتی وزیر اس سوال پر بھڑک گئے۔ انہوں نے کہا،”پچھلے کچھ عرصے سے میڈیا سے میرا ساتھ رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال اسی ذہنیت کا غماز ہے جو آپ کے ایک دوست نے پہلے کیا تھا۔”دراصل جتیندر سنگھ کا "دوست” سے مراد ایک بھارتی ٹی وی چینل کے اس صحافی سے تھا جنہوں نے ان سے پوچھا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کیا "کشمیر پر بھارت کے موقف کی تائید” ہے یا حکومت چاہتی تھی کہ وہ بھی اس میں شرکت کریں جو بھارتی موقف کے خلاف ہیں؟بھارتی وزیر نے اس طرح کے سوالات پر ناراض ہوتے ہوئے کہا تھا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس پر بھارت کا موقف وہی ہے جو ملک کی دیگر ریاستوں یا مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے بارے میں ہے۔ کیا کوئی پنجاب، گوا یا دہلی پر بھارت کے موقف کے بارے میں بھی سوال کرتا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ "کشمیر پر بھارت کا موقف” سے متعلق سوال دراصل ایک مفروضہ ہے اور کچھ لوگ اس مفروضے اور "غلط بیانیے” کے ذریعہ کشمیر کے لاکھوں نوجوانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنا چاہتے ہیں۔ اور ایسا کرکے وہ ان کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔کشمیر میں سیاسی عمل کی بحالی کی ضرورت کے حوالے سے سوال کے جواب میں بھارتی وزیر کا کہنا تھا،” سیاسی عمل سے آپ کی کیا مراد ہے؟ سیاسی عمل تو پہلے ہی شروع ہوچکا ہے، ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسلیں قائم ہوچکی ہیں، بلاک ڈیولپمنٹ کونسلیں، پنچ اور سرپنچ کی کونسلیں قائم ہوچکی ہے۔ یہ سیاسی عمل نہیں تو او رکیا ہے؟” بھارتی وزیر نے کشمیری صحافی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، "آپ کو تو ہمارا اور نریندر مودی جی کا ممنون ہونا چاہئے کہ 70برس بعد ڈسٹرکٹ کونسلیں دوبارہ قائم کی گئی ہیں۔”جی ٹوئنٹی کے چیف کوآرڈینیٹر ہرش وردھن شرنگلا نے کہا کہ اس میٹنگ میں مندوبین کی بڑے پیمانے پر شرکت ہوئی ہے جی ٹوئنٹی کے چیف کوآرڈینیٹر ہرش وردھن شرنگلا نے کہا کہ اس میٹنگ میں مندوبین کی بڑے پیمانے پر شرکت ہوئی ہے،جب ایک فرانسیسی صحافی نے "انتہائی سکیورٹی” اور میٹنگ کی وجہ سے اسکولوں کو بند کر دینے کے بارے میں پوچھا تو جتیندر سنگھ بحث پر اترآئے حتی کہ یہ بھی کہا کہ وہ سکیورٹی کے متعلق سوالات پوچھ کر مندوبین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی کی تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کرکے مودی حکومت وادی کے معمول پر لوٹ آنے کے اپنے دعوے کو درست ثابت کرنا چاہتی ہے۔ تاہم یہ میٹنگ بندوقوں کے سائے میں ہو رہی ہے۔ ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ نیشنل سکیورٹی گارڈ کے خصوصی کمانڈوز اور بحریہ کے خصوصی مارکوس حفاظتی دستوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔سرینگر میں متعدد اسکولوں کو بند کرا دیا گیا ہے جب کہ تاجروں نے شکایت کی ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے بند کی اپیل کے باوجود انہیں دکانیں کھلا رکھنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔فرینچ ریڈیو سے وابستہ ایک صحافی نے انتہائی سکیورٹی اور اسکولوں کے بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں کے حوالے سے جب سوال کیا تو مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ "آپ بہت زیادہ معلومات رکھنے والے صحافی لگتے ہیں۔” انہوں نے فرانسیسی صحافی کو اپنے وطن جاکر ایسی میٹنگوں کے دوران عائد کی جانے والی پابندیوں کا جائزہ لینے کی بھی نصیحت کی۔اس پر جوابا فرانسیسی صحافی نے پوچھا کہ کیا بھارتی وزیر کو لگتا ہے کہ ایسے پروگراموں کے دوران فرانس میں اسکول بند کردیے جاتے ہیں۔سنگھ صحافی سے الجھ پڑے اور کہا،”میں اسکولوں کی بات نہیں کررہا، لیکن جب اتنے بڑے پیمانے پر فرانس میں، پیرس میں، کوئی پروگرام ہوتا ہے تو سکیورٹی ہمیشہ بڑھا دی جاتی ہے۔”انہوں نے مزید کہا، "میں نے خود بھی دیکھا ہے، جن ہوٹلوں میں مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے ان کی گھیرا بند ی کردی جاتی ہے۔ سنگھ کا کہنا تھاکہ مہمان نوازی کی وجہ سے بھی سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ "اسے اس انداز میں پیش نہ کریں کہ دوسرے ملکوں سے آنے والے مندوبین خدشے میں پڑجائیں۔” ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ نیشنل سکیورٹی گارڈ کے خصوصی کمانڈوز اور بحریہ کے خصوصی مارکوس حفاظتی دستوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ نیشنل سکیورٹی گارڈ کے خصوصی کمانڈوز اور بحریہ کے خصوصی مارکوس حفاظتی دستوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے ؟جب ایک بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ بعض ممالک کی اس میٹنگ میں عدم شرکت کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کے مقابلے میں تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں؟ جی ٹوئنٹی کے چیف کوآرڈینیٹر ہرش وردھن شرنگلا نے انہیں "چھوٹی موٹی چیزوں” پر توجہ نہیں دینے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس میٹنگ میں مندوبین کی بڑے پیمانے پر شرکت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ "تمام میٹنگوں میں تمام ممالک شرکت نہیں کرتے۔ اور بعض ملکوں کے شرکت نہ کرنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ وہ ہمارے دشمن بن گئے ہیں۔ بات کو اتنازیادہ طول مت دیجئے۔”شرنگلا نے اس بات کی بھی تردید کی کہ کسی ملک نے سری نگر میں جی ٹوئنٹی میٹنگ کے لیے ٹریول ایڈوائزی جاری کی ہے۔۔