مظفر آباد (ویب نیوز)

آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے  وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خان توہین عدالت کیس میں عہدے سے نااہل کردیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو فوری طور پراسمبلی ممبر شپ ختم کرنے اور نا اہلی نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔  چیف جسٹس  عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ کی سربراہی میں قایم فل کورٹ نے وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کی عدلیہ مخالف تقاریر پر فیصلہ سنا دیا اور انکی نااہلی کی سزا سنا دی وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کو ہائی کورٹ کے فل بینچ نے کورٹ کی سماعت ختم ہونے تک سزا سنائی جس کے لئے روبکار خاص قائم کی گئی تھی جس کی سماعت چیف جسٹس صداقت حسین راجہ کی سربراہی میں  منگل کی صبح ساڑھے دس بجے شروع ہوئی تھی فل کورٹ بینچ میں جسٹس میاں عارف حسین ،جسٹس لیاقت  شاہین ،جسٹس سید شاید بہار ،جسٹس سردار اعجاز  اور جسٹس خالد رشید  شامل تھے نے ایک ہی روز ایک ہی سماعت میں  کیس مکمل کیا  اور دو گھنٹے بعد فیصلہ سنادیا وزیراعظم اس وقت عدالت العالیہ میں موجود تھے چیف جسٹس کی ہدایت پر جسٹس خالد رشید نے وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کو اسمبلی کی رکنیت اور وزارت عظمی سے نااہل کر دیا گیاجنھیں اعلی عدلیہ سے متعلق بیانات پر قصور وار قرار دے دیا گیا ہے قبل ازیں،توہین عدالت نوٹسز پر وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویرالیاس خان عدالت العالیہ اور عدالت عظمی پیش ہوگئے،  اعلی عدلیہ نے وزیراعظم کی مبینہ طور پر عدلیہ مخالف تقریر اورمیڈیا ٹاک کا ریکارڈ سامنے آنے پر منگل کے روز  انہیں طلب کیا تھا،تنویرالیاس  عدالت العالیہ کے دئیے گئے وقت پر پیش ہوگئے اور کورٹ روم میں داخل ہوتے ہی روسٹرم پر پہنچے تو عدالت العالیہ سے غیر مشروط معافی مانگ لی، میرے کسی بھی الفاظ یا تقریر سے معزز عدالت کو کوئی تکلیف ہوئی، عزت و وقار پر آنچ آئی تو میں غیر مشروط معافی مانگتا ہوں وزیراعظم  کے الفاظ،  جس پر چیف جسٹس نے کہا  آپ پہلے اپنے عدلیہ مخالف بیانات کی ویڈیوز دیکھیں جس کے بعد  کورٹ روم میں نصب بڑی ایل ای ڈی سکرین پر اسلام آباد میں 3 روز قبل سویٹ ہومز کی تقریب میں کی گئی تقریر اور پیر کے روز عدالت طلبی کے بعد اسلام آباد میں میڈیا ٹاک اور دو ہفتے قبل میرپور میں کی گئی پریس کانفرنس کے کلپس شامل تھے جس کے بعد عدالت العالیہ کی جانب سے وزیراعظم سے سوالات کا سلسلہ شروع کردیا گیا  پہلا سوال چیف جسٹس نے کیا،  کیا آپ نے ویڈیو دیکھ لی۔ وزیراعظم  نے جواب دیا جی ہاں، پھر جسٹس خالد رشید نے سوالات  شروع کئے کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کہ یہ گفتگو آپ کی ہی ہے وزیراعظم نے کہا ہمارے پاس تقریر لکھی ہوئی آتی ہے جس پر عدالت برہم ہوئی اور کہا کہ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں جس پر وزیراعظم نے اقرار کیا کہ یہ ساری گفتگو انہی کی ہے پھر سوال ہوا آپ کو معلوم ہے اسلامی ترقیاتی بینک کیس کب سے عدالت میں زیر کار ہے وزیراعظم مدت نہ بتاسکے کہا لمبے عرصے سے ہے، جسٹس خالد رشید سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حکومت نے ہر دو فرموں کو این او سی جاری کیاہے؟ وزیراعظم نے کہا میں نے نہیں کیا سابقہ حکومت نے کئے ہیں عدالت نے پھر استفسار کیا کہ حکومت نے ہی کئے ہیں؟ وزیراعظم نے کہا جی ہاں، کورٹ نے سوال کیا آپ کو یہ علم تھا کہ یہ دو سال سے معاملہ چل رہا؟ نہیں اسکا علم نہیں تھا وزیراعظم کا جواب، پھر آپ نے کیسے یہ سب کہ دیا؟، وزیراعظم  نے پھر کہا میں عدالتوں کا احترام کرتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے دوبارہ ویڈیو چلوا دی اور انکا متازعہ بیان سنوایا، پھر سوال کیا عدالتی احکامات کو کھلواڑکہا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم معقول جواب نہ دے سکے اور کہا سیاسی بیان تھا جس پر چیف جسٹس نے حیرت سے کہا اسے وزیراعظم  کا جواب نہیں کہا جا سکتا یہ سیاست نہیں ہے جناب توہین ہے عوام میں غلط تاثر پھیلا کہ خدا نخواستہ ہم ویسے ہی یہاں بیٹھے ہیں اور ہمارا کوئی کام نہیں، پھر پوچھا گیا بطور وزیر اعظم، ایم ایل اے اور ریاست کے شہری آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ بیان توہین عدالت ہے کہ نہیں وزیراعظم لیت و لعل کرنے لگے مگر جسٹس خالد رشید نے کہا آپ کوہر صورت جواب دینا ہوگا ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ انہیں  بتائیں کہ یہاں جواب دہی ہے اور ہر صورت جواب دینا ہوگا وزیراعظم نے کہا جی بالکل یہ توہین عدالت  ہے چیف جسٹس نے کہا ہم نے وزیراعظم کو عدالت نے بلایا ہے پی ٹی آئی صدر کو نہیں جس پر وزیراعظم نے دوبارہ معزرت کے الفاظ  دہرائے عدالت نے دن ڈیڑھ بجے تک تحریری جواب مانگا  وزیر اعظم نے عدالت عالیہ کے روبروکہا میں معافی چاہتا ہوں  عدالت نے جرح پر مبنی سوال و جواب پر وزیراعظم سے دستخط لئے اور کہا آپ محتاط رہیں آپ کا سابقہ ریکارڈ بھی ٹھیک نہیں آپ نہایت لوز ٹاک کرتے ہیں ڈیڑھ بجے پھر یہاں تشریف لائیں اور ابھی سپریم کورٹ تشریف لیجائیں وزیراعظم کے ہمراہ قانونی ٹیم ایڈووکیٹ جنرل خواجہ مقبول وار اور وزیراعظم کے وکیل اصغر علی ملک ایڈووکیٹ موجود رہے،اس موقع پر وزرا سینئر وزیر خواجہ فاروق احمد،وزیر قانون سردار فہیم اختر ربانی، وزیر تعلیم دیوان علی خان چغتائی،  چئیرمین وزیراعظم معائنہ و عملدرآمد کمیشن پیر مظہر سعید شاہ، پارلیمانی سیکرٹری محترمہ تقدیس گیلانی، ترجمان وزیراعظم توصیف عباسی، مشیر حکومت قاضی اسرائیل، کمشنر عدنان خورشید،  پرنسپل سیکرٹری فیاض علی عباسی،  پریس سیکرٹری خواجہ کاشف میر، سپیشل سیکرٹری وزیراعظم مسعو الرحمن،  ڈی آئی جی عرفان کشفی،سینئر وکلاء صحافیوں کی بڑی تعداد کورٹ روم میں موجود تھی، بعد ازاں وزیراعظم  سپریم کورٹ پیش ہوئے تو عدالت عظمی نے ہائی کورٹ سے معاملہ مکمل ہونے پر سماعت کی ہدایت کی تھی۔