- عمران خان سمیت دیگر درخواستوں پر حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کو مزید کام سے روک دیا۔
- عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں ہے،مہربانی کر کے حکومت کو سمجھائیں آئینی اقدار کااحترام کریں
- اٹارنی جنرل صاحب!عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی
- ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، 9 مئی کے واقعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی ختم ہو گئی،ریمارکس
- ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ نہ صرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے،جسٹس منیب اختر
- فون ٹیپنگ بذات خود غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے، حکومت تاثر دے رہی ہے فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے، شعیب شاہین
- فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
اسلام آباد: (ویب نیوز)
آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کیخلاف عمران خان سمیت دیگر کی درخواستوں پر حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کو مزید کام سے روک دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ سنا دیا، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
وفاقی حکومت نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا تھا، مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
انکوائری کمیشن کے خلاف عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے درخواستیں دائر کی تھیں، درخواستوں میں مبینہ آڈیو تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کیلئے بننے والے لارجر بنچ میں چیف جسٹس کی موجودگی پر اعتراض کر دیا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس عامر فاروق پر مشتمل تین رکنی آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اورسابق وزیر اعظم عمران خان، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری اور دیگر کی جانب سے دائردرخواستوں پر سماعت کی ۔دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان عثمان نے چیف جسٹس عمرعطابندیال کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض کردیا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ درخواست ہے کہ چیف جسٹس اس بینچ کاحصہ نہ بنیں۔اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا مطلب ہے میں بینچ سے الگ ہوجائوں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ آپ اعتراض کررہے ہیں، آپ کی درخواست قابل احترام ہے،معلوم تھا آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے، میں تیار ہو کرآیا تھا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں ہے،مہربانی کر کے حکومت کو سمجھائیں آئینی اقدار کااحترام کریں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے، آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں ، حکومت نے چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی ہے، حکومت کیسے اپنے مقاصد کے لئے ججز کو منتخب کرسکتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب!عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی، ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے دلائل دینا شروع کردئیے، انہوں نے سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے۔ شعیب شاہین نے کہا کہ کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے کیونکہ اس نے جوڈیشل کاروائی کرنی ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو ہم کوئی بہتر راستہ دکھاتے، آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کاحصہ بنادیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنی مرضی سے ججز شامل کر کے کمیشن بنا دیا،چیف جسٹس آئینی عہدہ ہے،عدلیہ سے ایگزیکٹیو الگ رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے،اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے،بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اعتراض کرنا آپ کا حق ہے اٹارنی جنرل صاحب ،جس فورم پر اس عدالت کا جج رکھا گیا ہے وہ چیف جسٹس کی اجازت سے ہونا چاہیئے تھا، اس فورم کے لئے چیف جسٹس کو چاہیئے تھا کہ وہ جج سلیکٹ کرتا،لیکن حکومت نے اپنی مرضی سے ایک جج مقرر کیا ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی ختم ہو گئی،9مئی کے بعد اب عدلیہ پر بھی تنقید کم ہو گئی ہے، اچھی بات ہے کہ اب لوگوں کو احساس ہو گیا ہے کہ اداروں کی عزت کرنا کتنا ضروری ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم پیدا کر رہی ہے،افسوس ہے حکومت جانتے بوجھتے ہوئے یا بے دھیانی میں سپریم کور ٹ کے ججوں کے بیچ تقسیم پیدا کر رہی ہے، حکومت نے اپنی مرضی سے ججز شامل کر کے انکوائری کمیشن بنا دیا،عدلیہ کے اختیارات میں حکومت مداخلت نہ کرے۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ججز کی ریکارڈنگ عدلیہ کی آزادی پر سوال ہے، ریکارڈنگ اور ہیکنگ غیر قانونی اقدام ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی،ہم نے سوال پوچھا کہ 184بی میں لکھا ہے کم ازکم 5ججزکابینچ ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ آئین کااحترام کرے، آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں، معذرت سے کہتا ہوں حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیداکرنے کی کوشش کی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں نہیں لکھا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی؟فون ٹیپنگ ایک غیر آئینی عمل ہے۔جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ نہ صرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔ عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فون ٹیپنگ بذات خود غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے، حکومت تاثر دے رہی ہے فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے۔انہوں نے مزید موقف اپنایا کہ حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا؟ جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ آرٹیکل 209کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے، جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مفروضے کی بنیاد پر آڈیوز کو درست مان لیا گیا۔