- مراد اکبر بازیابی کیس،سیکرٹری داخلہ،ڈی جی رینجرز اور آئی جی اسلام آباد پیر کواسلام آباد ہائیکورٹ طلب
- پولیس، رینجرز یونیفارم میں بندے اٹھائے جا رہے ہیں کسی کو پروا نہیں، آرڈر کا مقصد آئندہ اصلی وردی والوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے ، جسٹس محسن اختر کیانی
- اگر بندہ نہ آیا تو اگلی تاریخ پر وزیر داخلہ کو بلاؤں گا، پھر بھی نہ آیا تو وزیر اعظم کو بلاؤں گا
- 36 کلومیٹر کے ایریا میں اگر امن وامان کا یہ عالم رہا تو آپ لوگ پھر اپنے گھر چلے جائیں،ریمارکس
اسلام آباد(ویب نیوز)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مراد اکبر بازیابی کیس میںسیکرٹری داخلہ،ڈی جی رینجرز اور آئی جی اسلام آباد کو پیر کے روز ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے ہیںکہ اگر بندہ نہ آیا تو اگلی تاریخ پر وزیر داخلہ کو بلاؤں گا،اگر پھر بھی بندہ نہ آیا تو وزیر اعظم کو بلاؤں گا، اسلام آباد کی حدود سے پولیس و رینجرز کی وردی میں بندے اٹھائے جا رہے ہیں کسی کو پروا نہیں۔سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی، جس میں عدالتی حکم پر ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ،اسسٹنٹ اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور لاپتا مراد اکبر کے وکیل قاسم ودود، ایس پی نوشیروان اور ڈی ایس پی لیگل عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے مقدمے کی تفصیل عدالت میں پیش کی۔ عدالت نے ا ستفسار کیا کہ یہ بتائیں، جو لوگ آئے ، وہ نہ سی ٹی ڈی کے تھے نہ رینجر کے تھے ، یہ کنفرم کریں ؟ ۔ ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ جی بالکل ان میں سے کوئی نہیں تھا ۔ عدالت نے کہا فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کون ہے، جس پر ڈی آئی جی نے جواب دیا جی بالکل ہم اس کو دیکھیں گے۔ عدالت ہمیں وقت دے۔عدالت نے کہا اگر گاڑیاں اور افراد کا تعین ہو گیا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ اتنے لوگ جب سی ٹی ڈی اور رینجر کی وردی میں آئیں گے تو یہ شیم فل ایکٹ ہوگا۔ کروڑوں روپے سیف سٹی پر لگ گئے، لوگوں کی ذاتی ویڈیو بنا بنا کر اپ لوڈ کردیتے ہیں لیکن چور اور ڈاکوؤں کو نہیں پکڑتے ۔ کہاں ہیں ڈی جی رینجرز ؟، وزارتِ دفاع سے کون ہے؟، عدالت نے ڈی جی رینجرز ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر ڈی جی رینجرز کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کرؤں گا۔ وہ ذمے دار ہیں اگر ان کی وردی استعمال ہو رہی ہے تو۔ اسلام آباد کے اندر اتنے لوگوں نے مل کر ایک بندے کو اٹھایا ۔ پولیس، رینجر اور سی ٹی ڈی کی وردی میں لوگ آکر بندہ لے گئے۔ کیا وہ جعلی لوگ تھے، آپ نے پرچہ کیوں نہیں درج کیا۔پولیس اور رینجرز کی وردی میں چوریاں ہو رہی ہیں ۔اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پہلے رینجرز کو ڈائریکشن نہیں تھے ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے جواب دیا میں ابھی آرڈر کردیتا ہوں ، سمجھ لگ جائے گی سب کو ۔ ورنہ اسلام آباد میں نہ آئی جی کو رہنے کا حق ہے نہ کسی اور کو ۔ ڈی جی رینجر کو پتا ہونا چاہیے تھا ان کی وردی اگر استعمال ہوئی ہے۔ لوگ پولیس اور رینجر کی وردیوں میں بندے اٹھا رہے ہیں اور کس کو پرواہ ہی نہیں ۔عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کو ہدایت کی کہ ڈی جی رینجرز کو کہیں آئندہ سماعت پر خود آئیں ۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ، ڈی جی رینجرز کو پیر کے روز ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اپنی اپنی ایف آئی آر لے کر آئیں۔ عدالت نے کہا کہ اپنے اپنے ادارے کی وردی آپ نے بچانی ہے۔ اس کا اثر آئے گا۔ڈی جی رینجرز ، آئی جی معاملے کو دیکھیں اور مقدمہ درج کرائیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میں پھر ان سے پوچھوں گا کہ اسلام آباد میں آپ اپنی وردی کیوں نہیں سنبھال سکتے ۔ آرڈر کا مقصد آئندہ اصلی وردی والوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ اگر آپ اس طرح کام نہیں کرسکتے تو آپ لوگ گھر چلے جائیں، اگر عمل درآمد نہ ہوا تو وزیر اعظم کو بلاؤں گا۔عدالت نے پیر کے روز آئی جی اسلام آباد کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ اگر بندہ نہ آیا تو اگلی تاریخ پر وزیر داخلہ کو بلاؤں گا۔اگر پھر بھی بندہ نہ آیا تو وزیر اعظم کو بلاؤں گا۔ 36 کلومیٹر کے ایریا میں اگر امن وامان کا یہ عالم رہا تو آپ لوگ پھر اپنے گھر چلے جائیں ۔