• آڈیو لیکس انکوائری کمیشن تشکیل کیس، ججز کی تضحیک کے بعد کہا جا رہا ہے آڈیوز کی تحقیق کرالیتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال
  • چیف جسٹس آف پاکستان آئینی عہدہ ہے،مفروضے پرچیف جسٹس کا چارج کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا،سپریم کورٹ
  • کیا وفاق کوعلم نہیں آڈیوزمصدقہ ہیں یا نہیں؟ وزیرداخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کرچکے،لاپرواہی پر تو وزیر داخلہ کو ہٹا دیا جانا چاہیے تھا، جسٹس منیب اختر
  • لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، وفاقی حکومت نے اس معاملے کے حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا ہے، اٹارنی جنرل

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل کے خلاف مختلف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا؟ پہلے ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کرالیتے ہیں،جبکہ جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ بغیر تصدیق آڈیوز پر پریس کانفرنس کرنیوالے وزیر کو استعفی دینا چاہیے۔چیف جسٹس عمر عطا ء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 5 رکنی بینچ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ مبینہ آڈیولیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضے پرچیف جسٹس کا چارج کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے حکومت کی جانب سے بنچ پراعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل منصورعثمان نے بنچ پراعتراضات پڑھ کر سنائے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ ایک چیز مس کررہے ہیں، ان نکات پردلائل دیں۔اٹارنی جنرل منصورعثمان نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جارہے ہیں کہ ہم میں سے 3 ججز متنازع ہیں؟ پھر آپ کو بتانا ہو گا کہ کس بنیاد پر فرض کر لیا 3 ججز کا کنفلکٹ ہے، دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے، میں چاہوں گا کہ آپ دوسرے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں۔اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی اوآرز پڑھ کر سنائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظرمیں درست ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا ہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا وفاق کوعلم نہیں آڈیوزمصدقہ ہیں یا نہیں؟ سینئر کابینہ ممبر نے تو اس پر پریس کانفرنس بھی کردی، کیا یہ درست نہیں وزیرداخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کرچکے، پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز بھی چلائی گئی تھیں، کیا درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتا وہ بنچ پراعتراض اٹھائے، میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کالز کیسے ریکارڈ ہوئی؟کمیشن کے ذریعے عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تویہ معاملہ انتہائی ابتدائی سطح پر ہے، وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز ابھی مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کایہی بیان دیکھا جاناچاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کابیان نہیں۔جسٹس منیب اختر اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزیرخزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کانہ سمجھاجائے؟ کیا کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیاجن کی کالزٹیپ ہوئی؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ تمام ججزسے متعلق نکل آئے پھر نظریہ ضرورت پرعمل ہوسکتاہے، اگرتمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جاسکتا ہے اب کسی نے توسننا ہے، وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکرا کا ہے۔جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی؟ کیا ایسی لاپرواہی برتی جا سکتی؟ ایسے بیان کے بعد تو وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہو جاتا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کیا ایک وزیر کے بیان کو پوری حکومت کا بیان کہا جاسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں اگر کسی نے کوئی پریس کانفرنس کی، عدالت یہ دیکھے وزیر داخلہ کا بیان 19مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا، اتنے اہم ایشو پر کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا؟ پہلے ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کرا لیتے ہیں۔جسٹس منیب اختر ریمارکس دئیے کہ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا جس جج کو کیس سے ہٹانا ہو اس کا نام لیکر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جوازہوتے ہیں، یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکرکہہ دے فلاں جج صاحب فلاں کیس نہ سنیں۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں؟ کیا حکومت نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کررہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی بھی شخص اپنیعمل کا خود جج نہیں ہوسکتا، ہماری اس سارے معاملے پر کوئی بدنیتی نہیں ہے۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کااعتراض2 اور ججز پر بھی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری درخواست کامتن آپ کے سامنے ہے،جائزہ لے لیں، بینچ تبدیل ہونے سے درخواست گزاروں کا حق متاثرنہیں ہوگا، استدعا ہے بینچ تبدیلی کی درخواست کوزیرغورلایاجائے۔ بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پراٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے۔ درخواست گزارعابدزبیری کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت الیکشن کیس میں فریق ہے وہی کمیشن بنارہی ہے، ٹی اوآرزمیں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر توبات تھی، یہاں عدالت کے سامنیایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، یہاں سوال ایگزیکٹوکی عدلیہ میں مداخلت کاہے۔ بینچ نے کسی کے حق یاخلاف فیصلہ نہیں دینا ایک تشریح کرنی ہے۔ اس سے قبل درخواست گزار حنیف راہی نے عدالت کو بتایا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پرابھی تک نمبرنہیں لگا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست پراعتراضات ہیں تو دور کریں، توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، یہ بھی دیکھیں کس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں، جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جاسکتا۔