- پنجاب انتخابات نظر ثانی درخواست ،ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت ملتوی
- آرٹیکل(3)184میں اپیل کے حق کیلئے آئینی ترمیم کو خوش آمدید کہیں گے ، آئینی اختیار کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال
- ریویو ایکٹ لاگو ہوا تو ازخود نوٹس والے سب کیسز دوبارہ کھل جائیں گے،جسٹس منیب اختر
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ آرٹیکل 184(3)میں اپیل کے حق کیلئے آئینی ترمیم کو خوش آمدید کہیں گے ، آئینی اختیار کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ریویو ایکٹ لاگو ہوا تو ازخود نوٹس والے سب کیسز دوبارہ کھل جائیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی پنجاب انتخابات نظر ثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے 1962کے عدالتی ایکٹ کا حوالہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت اچھا فیصلہ ہے، یہ ریویو سے متعلق تھا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیصلہ میں کہا گیا کہ عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ اور احتیاط برتنی چاہئے، فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جانب سے اب تک کے تین پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں، فیصلے میں وزڈم ہے، وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ بھارت میں حق سماعت نہ ملے تو نظرثانی درخواست دائر ہوتی ہے، ہمارے ہاں فیصلہ غیر قانونی ہو تو نظرثانی ہوجاتی ہے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ نظرثانی قانون کو وسیع کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین میں نظرثانی کے دائرہ اختیار کو بالکل واضح لکھا گیا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا کیس ہی یہی ہے کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ خلافِ آئین ہے جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فوجداری ریویو میں صرف نقص دور کیا جاتا ہے جبکہ سول میں سکوپ بڑا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں نہیں بدلا جاسکتا، اگر نظرثانی میں اپیل کا حق دینا ہے تو آئینی ترمیم درکار ہوگی، نظرثانی کیس میں صرف نقائص کا جائزہ لیا جاتا ہے، نئے شواہد بھی پیش نہیں ہوسکتے۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ آئین کہتا ہے شیڈول فور کے مطابق ہی قانون بن سکتا ہے، پارلیمنٹ ہائیکورٹ سے متعلق قانون بناسکتی ہے مگر سپریم کورٹ سے متعلق نہیں، آئین میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نظرثانی میں اپیل کا حق دینا آرٹیکل 184/3کیاختیارات میں کمی لانا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق وہ 184(3)کے اثر کو کم کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل(3)184میں اپیل کے حق کیلئے آئینی ترمیم کو خوش آمدید کہیں گے ، آئینی اختیار کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی ہم یہی کہہ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی میں آپ کو دکھانا ہوگا کون سا نقص فیصلہ میں موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس قانون کو صرف 184(3)تک محدود کیا گیا ہے، ایک محدود مقصد کے لئے ریویو اپیل بنا دیا گیا، کل پارلیمنٹ ایک اور قانون بناتی ہے کے ایک نہیں دو اپیلیں ہوا کریں گی تو کیا ہوسکتا ہے؟۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ محض قانون سازی سے نہیں آئینی ترمیم سے کرسکتی ہے۔جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اب تو ایکٹ کے آنے سے پہلے کے فیصلوں پر بھی نظرثانی قانون لاگو ہوگا، ایکٹ کے بعد از خود نوٹس والے مقدمات پر بھی ایکٹ لاگو ہوگا، 184/3کے تمام مقدمات پر ایکٹ لاگو ہوا تو سب کیس دوبارہ کھل جائیں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی قانون سے متعلق کئی اہم سوالات سامنے آئے جن کو دیکھیں گے۔تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو(آج) جمعرات کوسنیں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت (آج) ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔