• ہم آپس میں مشاورت کرکے جلد فیصلہ سنائیں گے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، اگر کوئی فریق تحریری معروضات دینا چاہے تو اسے خوش آمدید کہیں گے
  • آرٹیکل 188نظر ثانی کی حدود کو محدود کو نہیں کرتا، آئین کی انٹری 55 پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان
  • آرٹیکل کے 184/3کے مقدمات میں نظر ثانی کا دائرہ بڑھانا امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں ہائیکورٹس یا ٹریبونلز فیصلوں کے خلاف آتی ہیں
  • آرٹیکل 184/3کا مقدمہ براہ راست سپریم کورٹ میں سنا جاتا ہے، آنیوالے مقدمات اور اپیل کوایک طرح ٹریٹ نہیں کیا جاسکتا، دلائل
  • ریمارکس دئیے کہ قانون سازی کرنے کا اختیار قانون سازوں کے پاس موجود ہے، نظر ثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جا سکتاہے؟ ،چیف جسٹس
  • عدالت کو حقاق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، اگر نظر ثانی کا دارہ اختیار بڑھا دیا جاے تو کیا یہ تفریق نہیں ہوگی، ریمارکس
  • کیا نظرثانی کے اختیار کو سول قوانین سے مماثلت دی جا سکتی ہے؟،سپریم کورٹ ریویو ایکٹ میں صوبائی قوانین کا ذکر نہیں ہے، جسٹس منیب اختر
  •  اگر یہ قانون صوبائی سطح پر اپلائی ہوگا تو کیا ہائی کورٹس سپریم کورٹ کے طریقہ کار کو طے کریں گی؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم قانون سازی کا جائزہ لے کر رائے دیں؟
  • نظرثانی کے دائرہ اختیار کی سماعت کے بارے میں آئین نے تعین نہیں کیا، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار سماعت کو بڑھایا،اٹارنی جنرل
  •  پارلیمنٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے تحت چیف جسٹس پاکستان سے بنچ بنانے کا اختیار نہیں لیا، تلور نظرثانی کیس پانچ رکنی لارجر بنچ نے سنا تھا،دلائل

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی میں اپیل کا حق دینا درست نہیں لگ رہا، ہم آپس میں مشاورت کرکے جلد فیصلہ سنائیں گے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، اگر کوئی فریق تحریری معروضات دینا چاہے تو اسے خوش آمدید کہیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 188نظر ثانی کی حدود کو محدود کو نہیں کرتا، آئین کی انٹری 55 پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، آرٹیکل کے 184/3کے مقدمات میں نظر ثانی کا دائرہ بڑھانا امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں ہائیکورٹس یا ٹریبونلز فیصلوں کے خلاف آتی ہیں، آرٹیکل 184/3کا مقدمہ براہ راست سپریم کورٹ میں سنا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی کا دائرہ بڑھے اس کی مخالفت نہیں کی گئی، سوال جس انداز سے نظر ثانی دائرہ بڑھایا گیا اس پر ہے، بھارتی سپریم کورٹ میں اس نوعیت کے کیسز میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، سوال یہ ہے کیا قانون سازی سے نظر ثانی کا دائرہ اتنا بڑھایا جا سکتا ہے، نظر ثانی کا اتنا دائرہ بڑھانے کی وجوہات بھی سمجھ نہیں آتیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 188کے تحت عدالت کو نظر ثانی کا اختیارہے، آرٹیکل 188کے تحت کو ئی لمٹ نہیں، 184(3)کے تحت آنیوالے مقدمات اور اپیل کوایک طرح ٹریٹ نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قانون سازی کرنے کا اختیار قانون سازوں کے پاس موجود ہے، نظر ثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جا سکتاہے؟ عدالت کو حقاق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، اگر نظر ثانی کا دارہ اختیار بڑھا دیا جاے تو کیا یہ تفریق نہیں ہوگی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، آرٹیکل 184/3کے مقدمات میں نظرثانی کیلئے الگ دائرہ کار رکھا گیا ہے، نظرثانی اپیل کے حق سے کچھ لوگوں کیساتھ استحصال ہونے کا تاثر درست نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آہستہ آہستہ دلائل سے ہمیں سمجھائیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کے حق سے پہلے آئین لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے؟ ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو کیسے نظرانداز کریں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ سے پہلے 184/3 میں نظرثانی کا کوئی طریقہ نہیں تھا، حکومتی قانون سازی سے کسی کے ساتھ استحصال نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت قانون سازی کر سکتی ہے مگر نظرثانی میں اپیل کا حق دینا درست نہیں لگ رہا، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے، بھارت میں بھی آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں براہ راست نظرثانی اپیل کا حق نہیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ آئین نظر ثانی کے دائرہ اختیار کو محدود نہیں کرتا۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا نظرثانی کے اختیار کو سول قوانین سے مماثلت دی جا سکتی ہے؟جسٹس منیب نے کہا کہ سول قوانین صوبائی دائرہ اختیار میں ہیں اور سپریم کورٹ ریویو ایکٹ میں صوبائی قوانین کا ذکر نہیں ہے، اگر یہ قانون صوبائی سطح پر اپلائی ہوگا تو کیا ہائی کورٹس سپریم کورٹ کے طریقہ کار کو طے کریں گی؟ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی شق دو پر دلائل دیں، کیا آپ چاہتے ہیں ہم قانون سازی کا جائزہ لے کر رائے دیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی کے دائرہ اختیار کی سماعت کے بارے میں آئین پاکستان نے تعین نہیں کیا، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار سماعت کو بڑھایا، اسی طرح نظرثانی کے اختیار کی سماعت کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے تحت چیف جسٹس پاکستان سے بنچ بنانے کا اختیار نہیں لیا، تلور نظرثانی کیس پانچ رکنی لارجر بنچ نے سنا تھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا لارجر بنچ چار ججز پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل لارجر بنچ کا مطلب لارجر بنچ ہے، امریکن کورٹ آف اپیل میں مخصوص حالات میں کیس دوبارہ سننے کا اصول موجود ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ بہت دلچسپ ہے، دوسرے مرحلے میں عدالتی کارروائی چلانے کی اجازت کیلئے کچھ وجوہات تو ہونی چاہیں، ریکارڈ کا جائزہ نہ لینا یا ریکارڈ کا غلط جائزہ لینے جیسی وجوہات ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ میں شامل ہونی چاہیں تھیں۔انہوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں ایسا ہونا چاہیے، جائیں اور جاکر قانون سازی کریں، نیا دروازہ کھول کر دائرہ اختیار سماعت کو اتنا وسیع نہ کریں، عوامی مفاد کے گرانڈز کو قانون سازی کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ مقننہ نظر ثانی کا دائرہ اختیار بڑھا سکتا ہے، حکومت نے نظر ثانی کو اپیل میں تبدیل کر دیا جس کی ٹھوس وجوہات پیش کرنا لازمی ہے، قانون سازی سے قبل محتاط طریقہ کار سے حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے اہم قانون سازی کے بارے میں مشاورت کے لیے مجھے بلایا ہے، اگر عدالت اجازت دے تو میں جانا چاہتا ہوں، اجازت ملنے پر وہ روانہ ہوگئے۔اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سجیل سواتی آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کررہا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تو اس کیس میں فریق ہی نہیں ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں وفاق نے جواب دینا تھا، انہوں نے دے دیا۔ سجیل سواتی نے کہا کہ مجھے صرف 10 منٹ دیے جائیں، عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، تاہم چیف جسٹس نے انہیں ہدایت دی کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں تحریری طور پر دے دیں۔مقدمے میں ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف دیگر درخواست گزاروں نے ایڈووکیٹ علی ظفر کے دلائل اپنا لیے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپس میں مشاورت کرکے جلد فیصلہ سنائیں گے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، اگر کوئی فریق تحریری معروضات دینا چاہے تو اسے خوش آمدید کہیں گے۔