- جنوبی پنجاب پتھر کے دور میں جی رہا ہے ارکان کی فریادیں
- یونان میں کشتی کے حادثے میں جاں بحق افراد کے حوالے سے متاثرہ خاندانوں سے غم و اظہار یکجہتی
- سوئمنگ پول بنانے کے لیے اربوں روپے جبکہ دور دراز علاقے پانی سے محروم ہیں ۔
- سانحہ نو مئی کے سہولت کاروں کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جاتی بجٹ بحث
اسلام آباد (ویب نیوز)
قومی اسمبلی کے ہفتہ کو منعقدہ بجٹ اجلاس میں یونان میں کشتی کے حادثے میں جاں بحق افراد بالخصوص پاکستانیوں کے حوالے سے متاثرہ خاندانوں سے غم و اظہار یکجہتی کیا گیا ،عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے امریکہ سے باضابط حکومتی رابطے کا مطالبہ کردیا گیا جب کہ ایوان میں صوبہ جنوبی پنجاب کا معاملہ بھی اٹھ گیا اور کہا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب پتھر کے دور میں جی رہا ہے کسی حکومت نے اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں کی ہر جماعت دعوی کرتی ہے مگر اس معاملے کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔ سوئمنگ پول بنانے کے لیے اربوں روپے رکھے گئے ہیں جبکہ پسماندہ دور دراز علاقے پینے کے پانی سے محروم ہیں ۔ سانحہ نو مئی کے سہولت کاروں کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جاتی ۔ بجٹ اجلاس بالترتیب راجا پرویز اشرف اور زاہد اکرم درانی کی صدارت میں ہوا جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبد الاکبر چترالی نے کہا کہ یونان میں کشتی کے ڈوبنے سے متعدد پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے وزارت خارجہ اور ایجنسیاں کیا اقدامات کر رہی ہیں ۔ یونان میں پاکستانیوں کو پیش آنے والے اس حادثہ کی رپورٹ پیش کی جائے ۔ بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ریاض الحق نے مطالبہ کیا کہ کچی کینال کا وعدہ پورا کیا جائے توانائی کی واضح پالیسی بنائی جائے پیپلز پارٹی کی رہنما شگفتہ جمانی نے کہا کہ حالات انتہائی خراب ہیں عوام منتشر ہیں جب تک ان معاملات کا جواب نہیں آئے گا ملک ترقی نہیں کر سکتا سیاسی جماعتیں دشمنی میں اتنی آگے نکل گئی ہیں کہ نوجوان نسل کے زہن خراب ہو رہے ہیں جب چور دروازے سے حکومتیں آتی ہیں تو سانحہ نو مئی جیسے واقعات ہوتے ہیں سہولت کاروں کی بھی بات کی جائے انہیں بھی سزا دی جائے ۔ ڈاکٹر نثار نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ ہاوس کے پارکنگ ایریا میں ڈرائیورز کے لیے سایہ دار جگہ فراہم کی جائے ۔ سانحہ نو مئی یوم ندامت ہے ۔ یورپ کے لیے پی آئی اے کی فلائٹس بحال کی جائیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی قید میں ہیں مشرف نے امریکا کی ہر بات مانی حکومت اگر موثر طریقے سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکا کے سامنے اٹھائیںتو قوم کی بیٹی واپس آ سکتی ہے ۔ قبائلی رہنما محسن داوڑ نے کہا کہ بجٹ پر کیا بات کریں آج ہی اطلاع ملی ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنما کو جبری گمشدگیوں کا معاملہ اٹھانے کی پاداش میں حراست میں لے لیا گیا اور بعد میں جب کوئی الزام نہ ملا تو اس پر چرس کا پرچہ دے دیا ۔ سیاسی فضا دیکھتے ہوئے کون سی بات کریں ۔ موجودہ اور سابقہ حکومتوں میں جبری گمشدگیاں جاری رہیں ہم جب اپوزیشن میںتھے تب بھی لاپتہ افراد کی بات کر رہے ہیں اب حکومت میں ہیں تو اب بھی یہ مسئلہ ہے ایسے کوئی سرمایہ کاری نہیں آتی واحد ملک ہے جو آئی ایم ایف سے ڈکٹیشنز لیتا رہا ۔ دنیا ہمیں قانون کی حکمرانی کا درس دے رہی ہے ۔ معاشی استحکام کے لیے اپنے ہاؤس کو ان آرڈر کرنا ہو گا ۔ جنوبی پنجاب سے رکن ریاض مزاری نے وفاقی بجٹ کو وزیروں کا بجٹ قرار دے دیا اور کہا کہ روجھان ، تونسہ شریف ، راجن پور جیسے دور دراز علاقوں کو بجٹ میں یکسر نظر انداز کر دیا گیا ۔ صوبہ جنوبی پنجاب کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا ۔ ہم صوبے کا معاملہ وزارت اعلی یا وزیر بننے کے لیے نہیں بلکہ یہاں کی پسماندگی کی وجہ سے اٹھانے پر مجبور ہیں ۔ پسماندہ علاقوں کے مسائل سے آگاہی کے لیے وزیروں سے ملنے کے سلسلے میں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں سوئمنگ اور اسٹیڈیم کے لیے اٹھارہ اٹھارہ ارب رکھے گئے ہیں ضلع راجن پور اب بھی گیس سے محروم ہے ۔ 1901 میں بننے والے سکول بھی موجود ہیں کوئی نیا سکول نہیں دیا پورے ضلع میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے پتھر کے دور میں جی رہے ہیں سیاسی انتقام ختم کیا جائے ایسا نہیں ہونا چاہیے سیاسی مخالفت پر لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے ظلم ڈھایا جائے ۔ جائز کام نہیں کرتے عزت کا تو خیال کریں لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام آباد میں رہ کر روزانہ وزیر اعظم اور وزراء سے ملتے ہیں جبکہ ہمیں معلوم ہے ہمارے ساتھ کیا رویہ روا رکھا گیا ہے ۔ پارلیمانی سیکرٹری شاہدہ اختر علی نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے سانحہ نو مئی سیاہ باب ہے مسلم لیگ کے رکن ڈاکٹر درشن نے مطالبہ کیا کہ ملازمتوں میں اقلیتوں کے پانچ فیصد کوٹے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور اس کی شروعات پارلیمنٹ سے کی جائے یہ ہمارا ملک ہے ہم نے اسے سنوارنا ہے ۔ ہمارے لیے یہ دھرتی ماں ہے اور اپنی دھرتی ماں کے لیے جانیں قربان کر دیں گے ۔ مولانا عبد الاکبر چترالی نے حکومت کا اپنے انتخابی حلقے میںگرم چشمہ روڈ اور دیگر منصوبوں کے لیے فنڈز کی فراہمی پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ووٹرز کہہ رہے ہیں کہ پہلے جب چترال سے اپنی بجلی مل رہی تھی تو بل ٹھیک آ رہے تھے اب دوسرے بندوبست پر ساٹھ ساٹھ ہزار کے بل آ رہے ہیں اور یہ معاملہ بھی ہمارے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اجلاس کی کارروائی پیر تک ملتوی کر دی گئی ۔