- وفاقی بجٹ قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور،فنانس بل کی شق وار منظوری
- ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9ہزار 415 ارب مقرر کر دیا گیا
- پنشن ادائیگی 761 ارب روپے سے بڑھا کر 801 ارب روپے کر دی گئی
- فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے
- این ایف سی کے تحت 5ہزار 276 ارب کے بجائے 5ہزار390 ارب ملیں گے
- ترمیم میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لٹر کر دی گئی
- مولانا عبدالاکبر چترالی کے سواحکومتی و اپوزیشن ارکان نے فنانس بل 2023 اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تحریک کی مخالفت کر دی
- سود کی مخالفت کرنے والی حکومتی اتحادی جماعت جے یو آئی نے بھی فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی مخالفت کر دی
- فنانس بل سودی نظام پر مبنی ہے حکومت اسے منظور کرکے وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف جا رہی ہے، مولانا عبدالاکبر چترالی
اسلام آباد (ویب نیوز)
آئندہ مالی سال 2023-24 کے لیے 14ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، فنانس بل کی شق وار منظوری لی گئی۔ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9ہزار 415 ارب مقرر کر دیا گیا جبکہ پنشن ادائیگی 761 ارب روپے سے بڑھا کر 801 ارب روپے کر دی گئی۔ فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے۔این ایف سی کے تحت 5ہزار 276 ارب کے بجائے 5ہزار390 ارب ملیں گے۔ بی آئی ایس پی پروگرام 459 ارب کے بجائے 466 ارب کر دیے گئے اور وفاقی ترقیاتی بجٹ 950 ارب روپے ہوگا۔ وزیر خزانہ نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی جسے قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ترمیم میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لٹر کر دی گئی۔ وفاقی حکومت کو 60 روپے فی لٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔اپوزیشن رکن مولانا عبد الاکبر چترالی کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی جبکہ حکومت نے اپوزیشن رکن کی ترمیم کی مخالفت نہیں کی۔ ترمیم کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹی کو 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔اس سے پہلے 1300 سی سی سے 1600 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے فنانس بل 2023 اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تحریک کی مخالفت کر دی۔جماعت اسلامی کے واحد رکن مولانا عبدالاکبر چترالی کے سوا تمام حکومتی و اپوزیشن ارکان نے فنانس بل میں سود شامل ہونے کی وجہ سے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کی مخالفت کی۔مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلامی پیمانے پر جانچنے کے لیے بھیجنے کا مطالبہ کیا۔جماعت اسلامی کے واحد رکن نے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ فنانس بل سودی نظام پر مبنی ہے حکومت اسے منظور کرکے وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف جا رہی ہے، وفاقی شرعی عدالت سود کے خاتمے کا فیصلہ دے چکی ہے۔مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ حکومت سود کے حق میں دائر دو درخواستیں بھی سپریم کورٹ سے واپس لے چکی ہے، اب فنانس بل میں سود شامل ہے اس لیے اگر اس پر اسلامی نظر یاتی کونسل کی رائے نہیں لی جاتی تو یہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی۔اسپیکر قومی اسمبلی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو رائے کے لیے بھیجنے کے لیے ووٹنگ کرا دی۔سود کی مخالفت کرنے والی حکومتی اتحادی جماعت جے یو آئی نے بھی فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی مخالفت کر دی جبکہ حکومتی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی مخالفت کی۔جماعت اسلامی کے واحد رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کے حق میں ووٹ دیا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کی گئی فنانس بل کی شق تین ترمیم کے ساتھ منظور کر لی گئی۔ ترمیم کے مطابق تین ہزار 200 ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا تاہم متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور بلبوں پر اضافی ٹیکسوں کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری سے 2 ہزار روپے ٹیکس ہوگا جبکہ پرانے بلبوں پر یکم جنوری سے 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔