• پانچ   اگست 2019 کے بعد  3سال میں کشمیری  اکانومی کا500 بلین روپے کا نقصان ہوا
    گرفتاریاں ، پابندیاں، محاصرے ، چھاپے  اب بھی جاری ہیں حکومتی اقدامات خوف کو ہوا دے رہے ہیں
    بھارتی سپریم کورٹ ، ہائی کورٹس  کے سابق ججوں اور سابق سینئر بیوروکریٹس پر مشتمل19 رکنی فورم کی رپورٹ

نئی دہلی( ویب نیوز )

بھارتی سپریم کورٹ ، ہائی کورٹس  کے سابق ججوں اور سابق سینئر بیوروکریٹس پر مشتمل19 رکنی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر  نے  مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تازہ رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پانچ   اگست 2019 سے جولائی 2022 کے درمیان تین درجن سے زیادہ معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی گارنٹی دینے والے قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محتاط تخمینہ کے مطابق 500 بلین روپے کا نقصان اس خطے کو برداشت کرنا پڑا ہے۔اس کے علاہ زمین اور ڈومیسائل کے حقوق کی پامالی، قابل اعتراض گرفتاریاں، مواصلاتی پابندیاں، میڈیا کو ڈرانا اور دھمکانا، اور آزادی اظہار اور نقل و حرکت پر پابندیوں میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہو۔ آئے دن کے حکومتی اقدامات بداعتمادی اور خوف کو ہوا دے رہے ہیں۔ کشمیری  صحافی افتخار گیلانی کے مطابق  فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ کے 19اراکین میں پانچ ریٹائرڈ سینئر جج، جن میں دو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس،  ایک  سپریم کورٹ جج، چار سابق سینئر بیوروکریٹ، جن میں ایک سکریٹری داخلہ، ایک سکریٹری خارجہ اور ایک جموں و کشمیر کے سابق چیف سکریٹری کے علاوہ فوج کے سابق اعلی افسران، جن میں فضائیہ کے سابق نائب سربراہ اور فوج کی شمالی کمان کے سربراہ کے علاوہ تاریخ دان رام چندر گہا شامل ہیں ۔ سابق سکریٹری داخلہ گوپال کرشن پلئے اور حکومت کی سابق مصالحت کار رادھا کمار اس گروپ کی کوآرڈینیٹر ہیں۔اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس گروپ کا کہنا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعوی صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟ آخر حکومت پھر اس خطے میں انتخابات منعقد کیوں نہیں کرا پا رہی ہے؟فورم کا کہنا ہے کہ اگست 2019 سے جولائی 2022 کے درمیان تین درجن سے زیادہ معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی گارنٹی دینے والے قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محتاط تخمینہ کے مطابق 500 بلین روپے کا نقصان اس خطے کو برداشت کرنا پڑا ہے۔اس کے علاہ زمین اور ڈومیسائل کے حقوق کی پامالی، قابل اعتراض گرفتاریاں، مواصلاتی پابندیاں، میڈیا کو ڈرانا اور دھمکانا، اور آزادی اظہار اور نقل و حرکت پر پابندیوں میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ آئے دن کے حکومتی اقدامات بداعتمادی اور خوف کو ہوا دے رہے ہیں۔گروپ  کے مطابق حیرت انگیز طور پر جموں اور کشمیر میں 2023 میں سب سے زیادہ اسلحہ کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ دسمبر 2016 میں خطے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 369191  اسلحہ لائسنس ہولڈر تھے۔ بعد میں حکومت نے  اسلحہ کے لائسنس کے اجرا پر پابندی لگا دی تھی۔ اس سال جنوری میں جب  پابندی ہٹائی گئی، تو پہلے چھ ماہ میں ہی 130914 نئے لائسنس جاری کیے گئے۔جموں و کشمیر جیسے چھوٹے خطے میں اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ کا لائسنس جاری کرنا اور ہتھیاروں کے پھیلاو کی پشت پناہی کرنا حیران کن امر ہے۔یہ کن افراد کو جاری کیے جا رہے ہیں اور وہ اس کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں سوالوں کے گھیرے میں ہے؟گرچہ حکومت کا دعوی ہے کہ 2019 سے سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن اس گروپ کا کہنا ہے کہ  یہ 2019 سے پہلے کی نسبت کافی خراب ہے۔ اعداد و شمار کے حوالے سے فورم کا کہنا ہے کہ 2012 سے 2015 کے درمیانی سالوں میں سیکورٹی حالات خاصے بہتر ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں جموں ڈویژن کے دوردراز پہاڑی پیر پنچال علاقے میں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کا احیا، جن کو اب ڈیفنس گارڈز کا نام دیا گیا، تشویش کا موجب ہے۔لال کرشن  اڈوانی  جو1998  سے 2004 کے درمیان  ہندوستان کے وزیر داخلہ تھے، تو انہوں نے ان کمیٹیوں کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس کا مقصد تھا چونکہ پولیس اور سیکورٹی دستے ان دوردراز علاقوں میں فورا نہیں پہنچ پاتے تھے، اس لیے دیہاتیوں میں اسلحہ تقسیم کیا گیا تھا اور ان کو فوجی تربیت دی گئی تھی، تاکہ وہ اپنا دفاع خود کرسکیں۔ کم سے کم سیکورٹی دستوں کے آنے تک عسکریت پسندوں سے مقابلہ کرسکیں۔مگر چونکہ صرف ہندو دیہاتیوں کو ہی ولیج ڈیفنس کمیٹیوں میں بھرتی کیا گیا تھا، انہوں نے جلد ی اپنے مسلمان پڑوسیوں سے پرانے بدلے چکانے شروع کر دئے۔ کئی علاقوں میں وصولی کا دھندا شروع ہوگیا۔ لاتعداد شکایتوں کے بعد ان کو تحلیل کر دیا گیا اور ان سے اسلحہ بھی واپس لے لیا گیا۔یہ بھی رپورٹیں ملی تھیں کہ ان میں تقسم کیا گیا ایمینیشن عسکریت پسندوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔ گروپ نے یاد دلایا کہ یہ طریقہ کار ماضی میں ناکام ہوا ہے۔ بغیر کسی جوابدہی کے ان مسلح افراد نے مقامی یہاتیوں کو ہی نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ یہ خدشہ اب دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا  ہے کہ اگست 2019 کے بعد سیاسی رہنماں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں سمیت 5000 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں 144 نابالغ بھی شامل تھے۔ ان گرفتاریوں کے علاوہ، 2019 اور 2023 کے درمیان مزید 1071 گرفتاریاں کی گئیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) اور احتیاطی حراست والا بد نام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) جیسے سخت قوانین کے استعمال کو محدود کرنے کی ہدایات کے باوجود،ان کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے  اور اس کی زد میں کئی میڈیا کے افراد بھی آگئے ہیں۔دسمبر 2022 میں، وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے پارلیامنٹ کو اطلاع دی تھی کہ 2021 کے آخر تک یو اے پی اے کی گرفتاریوں سے متعلق 830 زیر التوا تحقیقات ہیں۔ جموں و کشمیر میں گرفتار کیے گئے 668 افراد میں سے 651 پر فرد جرم عائد کی گئی، کسی کو سزا نہیں ہوئی، اور 26 کو بری کر دیا گیا۔مارچ 2023 کو، صحافی عرفان میراج کو قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نییو اے پی اے کے تحت کشمیری غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)، فانڈیشنز کے سلسلے میں ہورہی تفتیش کے لیے گرفتار کیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ  انسانی حقوق کے ممتاز کارکن خرم پرویز کے قریبی ساتھی  ہیں ور ان کی تنظیم جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹیز (جے کے سی سی ایس) کے لیے کام کرتے ہیں۔ میراج نے مارچ 2022 میں جے کے سی سی ایس کو چھوڑ دیاتھا۔ پرویز نومبر 2021 سے دہشت گردی کی مبینہ مالی اعانت اور سازش کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔فورم نے جموں و کشمیر کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔ اس خطے میں 14 جیل کمپلیکس ہیں جن میں دو سینٹرل جیل، 10 ڈسٹرکٹ جیل، ایک خصوصی جیل اور ایک سب جیل شامل ہیں۔ ان کمپلیکس میں مجموعی طور پر 3,629 قیدیوں کی گنجائش ہے، لیکن جون 2023 تک، ان میں 5300 قیدی تھے۔دسمبر 2022 تک، کوٹ بلوال سینٹرل جیل میں 1,016 قیدی تھے، حالانکہ اس کی منظور شدہ گنجائش 902 تھی۔ سری نگر سنٹرل جیل میں 722 قیدی تھے، حالانکہ اس کی گنجائش 509 تھی۔ جموں ڈسٹرکٹ جیل میں 688 قیدی تھے، حالانکہ اس کی گنجائش 426 تھی۔