عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم
سیشن کورٹ معاملے کو سن کر دوبارہ فیصلہ جاری کرے،ہائی کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد( ویب نیوز)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیشن کورٹ معاملے کو سن کر دوبارہ فیصلہ جاری کرے۔خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست پر گزشہ روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی حق دفاع ختم کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کرکے آئندہ ہفتے فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔عدالت نے عمران خان کی توشہ خانہ فوجداری کیس ہمایوں دلاور کی عدالت سے منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کا سیشن کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے اور یہ معاملہ دوبارہ سیشن کورٹ میں بھیج دیا ہے کہ عدالت دوبارہ دلائل سن کر یہ فیصلہ کرے کہ آیا توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت ہے یا نہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ تفصیلی حکم نامے میں کہا کہ معاملہ دوبارہ فیصلے کے لیے ٹرائل کورٹ میں بھیجا جا رہا ہے، مزید کہا گیا عدالت کو بتایا گیا کہ کیس کو حتمی دلائل کے لیے آج مقرر کیا گیا ہے۔حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ جب عدالت کی طرف سے حتمی دلائل کے لیے معاملہ طے کیا جائے تو درخواست گزار اس معاملے پر دلائل کو مثبت انداز میں حل کرنے کو یقینی بنائے، ٹرائل کورٹ اس معاملے کا فیصلہ کرتے ہوئے متعلقہ درخواستوں میں اٹھائے گئے مسائل کو حل کرے گی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور کی فیس بک پوسٹس کا معاملہ ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے بھیج دیا۔عدالت نے کہا کہ معاملے میں ملوث افراد کو ایف آئی اے طلب کرسکتا ہے، 10 روز کے اندر ایف آئی اے جج کی فیس بک پوسٹس سے متعلق رپورٹ پیش کرے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم کی درخواست پر سماعت کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر علی عدالت میں پیش ہوئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز بھی موجود تھے۔خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریبا 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ایک کی ذیلی شق پی کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔۔