سینیٹ میں اتحادیوں و اپوزیشن کا بغیر بحث بلز کی منظوری پر شدید احتجاج

پارلیمنٹ کو تالا لگا دیا جائے ۔ سینیٹر میاں رضا ربانی

 سینیٹر مشتاق خان نے پارلیمنٹ کو عزت دو پارلیمنٹ کو آزاد کرو کے نعرے لگوا دئیے

 رضا ربانی ،  تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے جماعت اسلامی کے رہنما کا ساتھ دیا

پیمرا ترمیمی بل اپوزیشن کے احتجاج پر قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا

مالیاتی جرائم کے انسداد ، حج و عمرہ ، چاند دیکھنے اور تارکین وطن سے متعلق بلز منظور

اسلام آباد (ویب  نیوز)

سینیٹ میں میاں رضا ربانی نے بغیر بحث کے تھوک کے حساب سے بلز کی منظوری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے سخت ریمارکس دے دیئے  کہ پارلیمنٹ کو تالا لگا دیا جائے ۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان چیئرمین ڈائس کے سامنے پہنچ گئے اور پارلیمنٹ کو عزت دو پارلیمنٹ کو آزاد کرو کے نعرے لگوا دئیے ۔ رضا ربانی تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے  جماعت اسلامی کے رہنما کا ساتھ دیا ۔ رضا ربانی نے سرکاری بلز کی مخالفت کر دی ،پیمرا ترمیمی بل اپوزیشن کے احتجاج پر قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ۔ جمعہ کو ایوان بالا میں بغیر کسی بحث کے متعدد بلز منظور کئے گئے وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے قومی ادارہ برائے انسداد تطہیر زر ( اینٹی منی لانڈرنگ ) کے قیام کا بل پیش کیا ۔ بل کی منظوری رائے شماری سے ہوئی میاں رضا ربانی اور سینیٹر طاہر بزنجو نے اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے بلز کی حمایت نہیں کی ۔ میاں رضا ربانی طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے رہے کہ سینیٹ کا کیا فائدہ پارلیمنٹ کو تالا لگا دیں ۔ تاہم چیئرمین سینیٹ نے ان کا مائیک نہیں کھولا جس پر سینیٹر مشتاق اور میاں رضا ربانی چیئرمین سینٹ کے ڈائس کے سامنے پہنچ گئے پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو نے چیئرمین کے خلاف سخت الفاظ کہے ۔ مشتاق احمد خان نے پارلیمنٹ کو عزت دو پارلیمنٹ کو آزادی دو کے نعرے لگوائے ۔ پی ٹی آئی کے دیگر ارکان بھی چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے پہنچ گئے اپوزیشن ارکان کہتے رہے کہ سینیٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنایا جا رہا ہے ۔ سینیٹ کی اجتماعی بصیرت کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ قانون سازی کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کر کے ایوان بالا کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے جس پر چیئرمین سینیٹ سخت ناراض ہوئے اور کہا  کہ میں اکثریت کی رائے کو دیکھ کر فیصلہ کر رہا ہوں ۔ ارکان احتجاج کرتے رہے اور بلز کی منظوری کا سلسلہ جاری رہا ۔ گیس کی چوری کی روک تھام کے ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی منظور کر لیا گیا اسی طرح وفاقی اردو یونیورسٹی ، نیشنل اسکلز یونیورسٹی ، درآمدات و برآمدات ، نشانات تجارت سمیت حج و عمرہ کے ضابطہ کار ، چاند دیکھنے کے نظام ، تارکین وطن کے آرڈیننس میں ترامیم کے بلز بھی منظور کر لیے گئے ۔ اجلاس کی کارروائی دو نشستوں میں ہوئی اور نماز جمعہ کے لیے وقفہ کے بعد دوسری نشست میں مزید بلز منظور کئے گئے ۔ وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کانٹر فنانسنگ آف ٹیررزم اتھارٹی بل 2023 ایوان بالا میں پیش کیا۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ 12، 12 بل آرہے ہیں لیکن اتنے بل ایک دن میں کیسے پڑھے جا سکتے ہیں، ہمیں ربر اسٹیمپ نہ بنایا جائے، آج ہمارے ایوان پر ایڈیٹوریل لکھے جارہے ہیں، ایوان سے منظور کیے گئے 54 بل کی کیا ضرورت ہے۔کئی سینیٹ اراکین نے بل کی منظوری کی مخالفت کی، رضا ربانی نے کہا کہ بل منظور کرنے کے بجائے کمیٹی کو بھیجا جائے۔تاہم چیئرمین سینیٹ نے بل پر ووٹنگ کرائی اور بل کو اراکین کی اکثریت کی حمایت کے ساتھ منظور کرلیا گیا، بل کے حق میں 28 اور مخالفت میں 9 ووٹ آئے جب کہ رضا ربانی، کامران مرتضی، طاہر بزنجو اور عمر فاروق نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کانٹر فنانسنگ آف ٹیرارزم اتھارٹی بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ایوان نے قواعد معطل کرکے اور متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر بل کا جائزہ لیا تھا۔حنا ربانی کھر نے امید ظاہر کی کہ مجوزہ اتھارٹی پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تعزیری اقدامات سے بچائے گی، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے ہونے والی فنڈنگ پر نظر رکھنے والا عالمی ادارہ ہے۔یاد رہے کہ اکتوبر 2022 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کردیا تھا، اس فہرست میں شامل ممالک کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے قانونی، مالیاتی، ریگولیٹری، عدالتی اور غیر سرکاری شعبوں میں خامیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔بل کے مطابق اتھارٹی کی سربراہی چیئرمین کریں گے، جس میں وفاقی سیکریٹریز برائے فنانس، خارجہ امور اور داخلہ، گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، قومی احتساب بیورو اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل اور اینٹی نارکوٹکس فورس اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل، قومی انسدا دہشت گردی اتھارٹی کے قومی کوآرڈینیٹر اور چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکریٹریز شامل ہوں گے۔نئی قانون سازی کے مطابق مجوزہ اتھارٹی کے چیئرمین یا نصف ارکان کی درخواست پر اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔حنا ربانی کھر نے نئی اتھارٹی کے حوالے سے وضاحت کی تھی کہ یہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی انسداد کی کوششوں کو ادارہ جاتی بنانے گی اور یہ ایف اے ٹی ایف کی دو ضروری شرائط ہیں۔پہلے سے قائم نیکٹا اور حکومت کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو مجوزہ اتھارٹی کے تحت لایا جائے گا۔پیمرا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کردیا گیا، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ایوان بالا میں بل پیش کیا جب کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے احتجاج کیا اور نو نو کے نعرے لگائے۔اراکین نے مطالبہ کیاکہ بل کمیٹی میں واپس بھجوایا جائے، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق نے کہا کہ ورکرز کی بہبود کا سہارا لے کر بل کے ذریعے سنسرشپ کو مضبوط کیا گیا۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے بل سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بل پر بارہ ماہ مشاورت ہوئی ، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف پر گیارہ ماہ مشاورت ہوئی، اس میں کوئی سزا نہیں صرف جرمانہ بڑھایا گیا ہے، موجودہ بل میں تعریف ڈریکونین ہے۔انہوں نے کہا بل میں غلطی کی گنجائش ہوسکتی ہے کو شامل کیا گیا ہے، پہلے چئیرمین پیمرا لائسینس منسوخ کر سکتا تھا چینل بند کر سکتا تھا ، اب یہ اختیار چئیرمین سے لیکر اتھارٹی کو دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی کم از کم اجرت اور بقایات کی ادیگی کے لیے 2 ماہ رکھا گیا ہے ، خلاف ورزی پر ایک لروڑ سزا اور حکومت اشتہار نہیں دے گی، ڈیجیٹل پلاٹ فارم پر وہی کنٹیٹ چلے گا جو ٹی وی پر چلتا۔وفاقی وزیر نے کہا اتھارٹی میں پی بی اے کا بندہ ، میڈیا نمائندہ اور صحافیوں کو نمائندگی دی گء ہے، دس فیصد کنٹینٹ پبلک سروس میسج ہو گا۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ  بعض ارکان نے بل نہیں پڑھا، میں نے میڈیا سنسر شپ کو بھگتا ہے، میری جماعت اور قیادت نے بھگتا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتی جو کسی آواز کو سنسر کرے، اس کا گلا گھونٹے۔انہوں نے کہا کہ پندرہ ماہ میں آزادی اظہار رائے عالمی سطح پر سات پوائنٹ بہتر ہوا ہے، کسی صحافی کو گولی نہیں لگی، کسی کی ہڈی پسلی ٹوٹی نہ ناک ٹوٹی، کوئی چلتا پروگرام اف ایئر نہیں ہوا۔اس دوران اپوزیشن اراکین نے لاپتا صحافی عمران ریاض کے بارے میں سوال اٹھایا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ حکومت عمران ریاض کے بارے میں بتائے۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔