• اسلام آباد ہائیکورٹ ، شہر یار آفریدی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل
  •  عدالت نے شہریار آفریدی کو اسلام آباد سے باہر جانے سے روک دیا
  • شہریار آفریدی حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس کے شواہد کیا ہیں؟،جسٹس بابر ستار
  •  آئی بی کی رپورٹ تھی کہ شہریار آفریدی ڈسٹرکٹ کورٹ پر حملہ کرسکتے ہیں،ڈی سی اسلام آباد
  •  آپ نے رپورٹ دینے والے سے پوچھا نہیں کہ یہ جیل سے کیسے لوگوں کو اکسا رہے ہیں،جسٹس بابرستار
  •  میری آنکھیں اور کان انٹیلی جنس ادارے ہیں، سپیشل برانچ نے بھی رپورٹ دی تھی،ڈی سی اسلام آباد
  •  ہم نے یہ کارروائیاں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیں،آئی جی اسلام آباد
  •  سپیشل برانچ کی رپورٹ تو محض ایک مذاق ہے،جسٹس بابر ستار
  •  عدالت نے ڈی سی اسلام آباد اور  ایس ایس پی آپریشنز پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا

اسلام آباد (ویب نیوز)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہر یار آفریدی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کر دیا۔جسٹس بابر ستار نے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار شہر یار آفریدی کی رہائی کے کیس کی سماعت کی۔ شہر یار آفریدی کو عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ ڈی سی اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے شہریار آفریدی کی گرفتاری کا مجسٹریٹ کا آرڈر پڑھا۔جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ رپورٹ میں لکھا کہ یہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس کے شواہد کیا ہیں؟ ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ آئی بی کی رپورٹ تھی کہ شہریار آفریدی ڈسٹرکٹ کورٹ پر حملہ کرسکتے ہیں۔ جسٹس بابر نے استفسار کیا کہ آپ نے رپورٹ دینے والے سے پوچھا نہیں کہ یہ جیل سے کیسے لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔ڈی سی اسلام آباد نے جواب میں کہا کہ میری آنکھیں اور کان انٹیلی جنس ادارے ہیں، سپیشل برانچ نے بھی رپورٹ دی تھی۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کو معلوم ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں، ایک ملزم جیل میں گرفتار ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو اکسا رہا ہے، جس دن رہا ہونا تھا آپ کو یہ آرڈر کرنا یاد آگیا؟ آپ ذہن میں رکھیں توہین عدالت کی سزا چھ ماہ قید ہے۔جسٹس بابر ستار نے ڈی سی کو ہدایت کی کہ آپ یہ ذہن میں رکھ کر جواب دیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ صورتحال کشیدہ کب ہوئی ہے؟ ڈی سی نے بتایا کہ 8 اگست کو ایسی صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد میں ایسا کیا ہوا تھا کہ صورتحال کشیدہ لگی۔ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ ایس ایچ او سے پوچھا کہ کیا تھریٹ آرہے ہیں، عدالت نے ایس ایچ او کو روسڑم پر بلا لیا۔ایس ایچ او نے عدالت کو بتایا کہ میرا ایک دن پہلے تبادلہ ہوا تھا اور میں نے اسی دن چارج سنبھالا تھا، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ چلیں آپ کی جان چھوٹ گئی۔ ڈی پی او نے بتایا کہ میں 7 اگست کو چھٹی پر تھا۔عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جو کچھ یہ پڑھ رہے ہیں یہ تو پولیس نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔دوران سماعت، آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت میں پیش ہوئے۔ آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ ہونے سے قبل خدشات کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے اور ہم نے یہ کارروائیاں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیں۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ سپیشل برانچ کی رپورٹ تو محض ایک مذاق ہے، آئین قانون کے لحاظ سے چلانا ہے تو اس طرح چلائیں، کیا ڈی سی صاحب آپ نے شوکاز نوٹس کا جواب دیا ہے۔ ڈی سی نے بتایا کہ شوکاز کا جواب جمع کروا دیا ہے۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب یہ بڑا ایشو ہے ہم نے قانون کو مذاق بنا دیا ہے، عدالت ایک فیصلہ کرتی ہے اور آپ جا کر پھر ایک آرڈر اس کے خلاف نکال دیتے ہیں، سپریم کورٹ نے واضح کیا ہوا ہے کہ آپ نے ایم پی او کی وجوہات دینی ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت میں شوکاز نوٹس کا ڈی سی اسلام آباد کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ڈی سی اسلام آباد پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آئندہ سماعت پر ڈی سی اسلام آباد پر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔دوران سماعت، ایم پی او آرڈر جاری کرنے پر اختیارات سے تجاوز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ وکیل ایس ایس پی طاہر کاظم نے کہا کہ پہلا ایم پی او آرڈر کالعدم قرار دینے کی وجوہات مختلف تھیں، عدالت نے کہا کہ نظربندی احکامات بعد میں جاری ہوئے اور گرفتار پہلے کیا گیا، تھریٹ الرٹس پر کارروائی خدشات کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز کا جواب بھی غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز پر بھی فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے متعلقہ افسران کے نام فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ بیان حلفی دینے کو تیار ہیں شہریار آفریدی سے ایک ماہ آٹھ دن سے کوئی نہیں ملا، یہاں پر موجود افسران نے عدالت سے غلط بیانی کی ہے۔عدالت نے شہریار آفریدی سے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کا ریکارڈ طلب کرلیا جبکہ سپرنٹنڈنٹ جیل سے تفصیل طلب کی گئی کہ شہریار آفریدی سے اڈیالہ جیل میں کس کس نے ملاقات کی؟۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کو ایم پی او آرڈر جاری کرنے کا اختیار دینے کا نوٹیفکیشن دکھائیں، نوٹیفکیشن کہاں ہے جس میں ڈپٹی کمشنر کو یہ اتھارٹی دی گئی؟ اگر وہ نوٹیفکیشن موجود نہیں تو پھر اتنی بحث کی بھی ضرورت نہیں۔عدالت نے شہر یار آفریدی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کر دیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کو اسلام آباد سے باہر جانے سے روک دیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ شہریار آفریدی اپنے اسلام آباد کے گھر میں رہیں گے، اگر شہریار آفریدی کو کچھ ہوا تو ڈی سی اور آئی جی اسلام آباد ذمہ دار ہوں گے، شہریار آفریدی کی حفاظت یقینی بنائیں۔ڈی سی اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد سے بیان حلفی طلب کر لیا گیا۔